مذکورہ بالاحدیث ان کے نکتہ نظر کا شدت سے انکار کر رہی ہے۔
غیر منصوص مسائل میں اجتہاد
وہ مسائل کہ جن میں کوئی صریح نص موجود نہ ہو‘ ان میں اجتہادجائز ہے ۔غیر منصوص سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ بعض مسائل ایسے بھی ہیں کہ جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے جیسا کہ بعض متجددین کا خیال ہے۔جاوید احمد غامدی اور منظور الحسن صاحب اجتہاد کا دائرہ کار طے کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’شریعت کے دائرے میں علماء اور محققین کا کام صرف اور صرف یہی ہے کہ احکام کے مفہوم و مدعا کو اپنے علم و ا ستدلال کے ذریعے سے متعین کرنے کی کوشش کریں ۔ اس میں ان کے لیے کسی تغیر و تبدل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔البتہ‘ جس دائرے میں شریعت خاموش ہے‘ اس میں وہ دین و مذہب‘ تہذیب و تمدن‘ اور عرف و رواج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر طرح کی قانون سازی کر سکتے ہیں ۔‘‘[1]
بعض لوگوں کو بس یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ کسی طرح قرآن و سنت کو خاموش کروا دیں ۔کیونکہ جب ایک دفعہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن و سنت تو ان مسائل میں خاموش ہیں ۔اب چاہے حکم شرعی معلوم کرنے کے لیے عقل عام(Common Sense)کے فل سفہ سے رہنمائی حاصل کر لیں یا فطرت انسانی کے نظریے کے تحت شریعت کا ڈھانچہ تشکیل دینا شروع کر دیں ۔یہ مفکرین اس لحاظ سے تمام معاصر مجتہدین میں عقل مند ثابت ہوئے ہیں کہ انہوں نے اس نکتے تک ر سائی حاصل کر لی ہے ‘ جب تک یہ فکر عام ہے کہ قرآن و سنت میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے‘ اس وقت تک ان جی سوں کے اجتہادی فکر کو قبول عام حاصل نہ ہوگا۔لہذا اٹھتے بیٹھے یہ نعرہ لگاؤ‘ قرآن و سنت جامع نہیں ہیں ۔قرآن و سنت میں ہر مسئلے کا حل موجود نہیں ہے۔دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر گوشے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔بعض مسائل کے بارے میں قرآن و سنت نے صریح الفاظ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے جبکہ اکثر اوقات قرآن و سنت کا منہج یہ ہے کہ وہ ایسے ضوابط‘ علل اور اسباب بیان کر دیتے ہیں کہ جن کے ساتھ احکام معلق ہوتے ہیں لہذا جو جزئیات بھی کسی کلی ضابطے کے تحت آتی ہوں تو ان سب کا حکم ایک جیسا ہو گا ۔ ا سی طرح اگر شرع نے کسی چیز کو کسی علت کی وجہ سے حرام کیاہے تو وہ علت جن اشیاء میں بھی پائی جائے گی وہ حرام متصور ہوں گی۔ پس قرآن و سنت نے بعض اشیاء کی حرمت تو صریح الفاظ میں بیان کر دی اور اکثر اوقات ایسی علل بیان کر دی ہیں جو کسی چیز کو حرام بنا دیتی ہیں لہذاان علل کی وجہ سے جب ہم کسی چیز کو حرام ٹھہرائیں گے تو اگرچہ ہم یہی کہیں گے کہ فلاں چیز نص سے حرام ہوئی ہے اور فلاں قیاس سے ‘ لیکن دونوں چیزوں کا حکم شریعت یا نصوص میں موجود ہے ایک کا صراحتاً اور دو سری کا قیا ساً‘ ا سی طرح کا معاملہ ان مسائل کا بھی ہے کہ جن کو مصلحت‘ سدالذرائع اور عرف وغیرہ جی سے قواعد کی روشنی میں مستنبط کیاجاتا ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وإذا کانت الحادثۃ لانص ولا إجماع فیھا‘ فمجال الاجتھاد فیھا ھو البحث عن حکمھا بأدلۃ عقلیۃ کالقیاس أو الاستحسان أو المصالح المر سلۃ أو العرف أو الا ستصحاب‘ ونحوھا من الأدلۃ المختلف فیھا‘ وھذا باب وا سع للخلاف بین الفقھاء۔‘‘[2]
’’اور جب کسی مسئلے میں نہ تو نص صریح ہو اور نہ ہی اجماع ہو تو اس مسئلے میں اجتہادکا میدان یہ ہے کہ اس مسئلے کا شرعی حکم عقلی دلائل مثلاً قیا س‘ ا ستحسان‘ مصالح مر سلہ‘ سد الذرائع ‘ عرف اور ا ستصحاب وغیرہ جی سے اختلافی دلائل سے معلوم کیا جائے گا‘ اور ان دلائل کے بارے میں فقہاء کے درمیان بہت اختلاف ہے۔‘‘
قیا س‘ اجماع‘ مصلحت‘ عرف‘ سد الذرائع‘ شرائع من قبلنا‘ ا ستصحاب اور استحسان وغیرہ جی سے قواعد عامہ کی حجیت بھی قرآن و سنت کی نصوص
|