Maktaba Wahhabi

58 - 214
عقیدے یا اخلاقیات کے جھگڑے کے بارے میں نہ تھا بلکہ ہر قسم کے اختلاف کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا کہ اس کا فیصلہ کیسے کرو گے اور دو سری اہم بات یہ ہے کہ حکمران یا گورنرکی طرف اکثر و بیشتر‘ معاملات سے متعلقہ تنازعات ہی کے حل کے لیے لوگ رجوع کرتے ہیں ۔ ا سی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’’یو شک الرجل متکئا علی أریکتہ یحدث بحدیث من حدیثی فیقول بیننا وبینکم کتاب اللّٰہ ما وجدنا فیہ من حلال ا ستحللناہ وما وجدنا فیہ من حرام حرمناہ وإن ما حرم ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم مثل ما حرم اللّٰہ ۔‘‘ [1] ’’(وہ زمانہ)قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے پاس میری احادیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی تو وہ شخص کہے گا ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے پس جس کو اللہ کی کتاب نے حلال ٹھہرا دیا تو ہم بھی اس کو حلال سمجھیں گے اور جس کو ہم نے اللہ کی کتاب میں حرام پایا تو ہم بھی ا سے حرام قرار دیں گے(اور یہی ہمارے لیے کافی ہے)۔(خبردار!)بے شک جس کو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہے وہ ا سی طرح حرام ہے جی سے کسی شیء کو اللہ نے حرام قرار دیا ہو۔ ‘‘ اس حدیث مبارکہ میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت میں بیان شدہ کسی بھی حلال یا حرام شیء کی حلت یا حرمت کے منکر کو ایک فتنہ پرور شخص قرار دیاہے۔اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پشین گوئی اس اعتبار سے سچ ثابت ہوئی ہے کہ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں نام نہاد مفکرین اور عقلیت پسند احادیث ر سول کا کسی نہ کسی انداز سے انکار کرتے ہی رہے ہیں ۔بعض نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام روایات کا کلیتاً انکار کردیا جیسا کہ غلام احمد پرویز کا معاملہ تھا جبکہ بعض نے حدیث کے انکار کے لیے حیلوں بہانوں سے کام لیاجیسا کہ الطاف صاحب کا خیال ہے کہ اخلاق وعبادات سے متعلق روایات تو قابل قبول ہیں لیکن ان کے علاوہ معاشیات‘ سیا سیات‘ معاشرت‘ جہاد و قتال ‘ حدود و جنایات‘ قضاء ‘ طعام و قیام‘ لب اس و زینت اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مروی احادیث قرآن کی ایسی تشریح تھی جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لیے واجب العمل تھی۔ یہ نکتہ نظر ان کی ایک ذاتی رائے ہے جس کی کوئی شرعی دلیل تاحال ان کو نہ مل سکی‘بلکہ دلیل تو ان کے اس نظریے کے خلاف قائم ہے جیسا کہ (
Flag Counter