چار ماہرین فن ہیں اور چھ علماء ہیں ۔اب چار ماہرین اور دو علماء کی ایک رائے ہے جبکہ چار علماء دو سری طرف ہیں ۔لہذا اجتماعی اجتہاد کی اس صورت میں دوعلماء کی رائے چار علماء کے مقابلے میں بھاری اور وزنی شمار ہو گی۔ پس اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف میں اصل حیثیت علماء یا علم دین کی نہیں بلکہ گنتی کی ہے اور اس قسم کی گنتی کہ جس میں ماہرین فن کی رائے کو بھی علمائے مجتہدین کی رائے کے برابر حیثیت حاصل ہو‘ شرعی احکام کے قبول و عدم قبول میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔مثال کے طور پرمعاصرمعاشی ماہرین کی بات کریں تو ان کی اکثریت تو اس بات پر متفق ہے کہ سود کے بغیر کسی مسلمان ریا ست کا معاشی نظام چل ہی نہیں سکتا ۔
اس میں بہر حال کوئی شک نہیں ہے کہ اجتماعی اجتہاد کے عمل میں مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے رہنمائی لی جا سکتی ہے تا کہ علماء کے لیے فقہ الوقع کو سمجھنے اور مختلف أحوال و ظروف پر قرآن و سنت کی نصوص کے اطلاق میں آ سانی پیدا ہو لیکن اس رہنمائی کی وجہ سے نہ تو ماہرین فن مجتہد بن جاتے ہیں اور نہ ہی ان کے اس عمل کو ’عمل ِ اجتہاد‘ کہیں گے۔امام محمد رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں عرف کا لحاظ رکھنے کے لیے بازاروں کا بہت زیادہ چکر لگاتے تھے تا کہ بیع و تجارت کی اقسام‘ انواع‘ شروط اور احوال سے واقف رہیں ۔امام محمد رحمہ اللہ کے ان فتاوی کے بارے‘ جو انہوں نے بازار میں موجود تجار سے رہنمائی کی روشنی میں جاری کیے‘ ہم یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ وہ اجتماعی اجتہاد کی ایک قسم ہے۔اجتہاد شرعی حکم کی تلاش یا تطبیق کا نام ہے اور فقہ الواقع کی معرفت نہ تو شرعی حکم کی تلاش ہے اور نہ ہی اس کی تطبیق۔ جبکہ مجتہدین ‘ماہرین فن سے صرف فقہ الواقع کی معرفت ہی حاصل کرتے ہیں ۔
چوتھی تعریف
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ اجتماعی اجتہاد کی تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’وأما الاجتھاد الجماعی: فھو اتفاق مجموعۃ من العلماء علی حکم شرعی فی بعض المسائل الظنیۃ بعد النظر والتأمل فی البحوث المقدمۃ والآراء المعروضۃ فی مؤ س سۃ أومجمع۔‘‘[1]
’’اجتماعی اجتہاد سے مراد کسی ادارے یا اکیڈمی میں موجود علماء کی ایک جماعت کا‘ اپنے سامنے پیش کی گئی تحقیقات اور آراء کی روشنی میں ‘ظنی مسائل میں غور وفکر کے بعد ‘ان کے شرعی حکم کے بارے میں ایک اتفاقی رائے جاری کرناہے۔‘‘
اس تعریف پر بھی دو اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ اجتماعی اجتہاد کسی فعل کا نام ہے یا نتیجے کا؟۔اگر تو یہ ایک فعل ہے تو جب علماء کی ایک جماعت نے کسی مسئلے کے شرعی حکم پر مل بیٹھ کر بحث کر لی تو ان کا یہ فعل ہی اجتماعی اجتہاد ہے‘ چاہے ان کا اس مسئلے کے شرعی حکم پر اتفاق ہو یا نہ ہو۔ دو سرا ممکن اعتراض یہ ہے کہ ادارے یا اکیڈمی کی قید لگانا ایک اضافی قید ہے۔یہ کام اداروں کے بغیر بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ بعض اوقات کسی ایک دار العلوم کے منتظمین کسی مسئلے پر علمی سیمینار یا مجلس کا انعقاد کرتے ہیں اور بقیہ مدار س کے علماء کو اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں ۔
کچھ ہی عرصہ پہلے جامعہ بنوری ٹاؤن‘ کراچی میں دیوبند کے علماء کی ایک جماعت نے اسلامی بینکاری کے ناجائز ہونے کا فتوی جاری کیا۔علاوہ ازیں علماء کی باہمی مرا سلت یا تحریری مکالمے و مباحثے کے ذریعے بھی کسی ایک رائے یا نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات در ست ہے کہ اس وقت اجتماعی اجتہاد کے نام پر جو کام ہو رہا ہے ‘ وہ اکثر و بیشتر تحقیقی و علمی اداروں کے تحت ہی ہو رہا ہے ۔
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ اجتماعی اجتہاد کی دو سری ممکنہ تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’أو اتفاق أکثریۃ الحاضرین علی رأی معین فی ضوء مصادر الشریعۃ ومقاصدھا وقواعدھا ومبادئھا لاختیار ما یحقق المصلحۃ الزمنیۃ۔‘‘[2]
’’یا کسی مجلس میں موجود علماء کی اکثریت نے مصادر ‘ مقاصد اور قواعد اور مبادی شریعت کی روشنی میں کسی ایسی معین رائے پر اتفاق کر لیا جو
|