فتضاربت الأقوال وتبلبلت الأفکار‘ وأصبح الناس فی حیرۃ مما ی سمعون أو یقرأون۔‘‘[1]
’’اب تو یہ ہورہا ہے کہ ہر وہ شخص جس میں کچھ فقہی بصیرت پائی جاتی ہو‘ اجتہاد کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے اور لوگوں کے سامنے اپنی اجتہادی آراء پیش کرنا شروع کر دیتا ہے‘ اگرچہ اس میں اجتہاد کی اہلیت نہ بھی ہو اور اس میں اجتہاد کی اکثر و بیشتر شروط بھی نہ پائی جاتی ہوں ۔ پس متضاد آراء اور پریشان خیالیاں سامنے آتی ہیں اور عوام الناس جس کو بھی پڑھتے یا سنتے ہیں ‘ حیرت کے سمندر کے ڈوب جاتے ہیں ۔‘‘
أ ستاذ مصطفی الزرقاء حفظہ اللہ نے بھی معاصر انفرادی اجتہاد کے عمل کے بارے میں ا سی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ویخشی أیضا من المتاجرین بالدین‘ الذین یصدرون کتباً وفتاوی غرارہ‘ یتزلفون بھا إلی الطغاۃ‘ أو یخدمون بھا أعداء الاسلام‘ فیھدمون دعائم الدین تحت ستار الاجتھاد وحریۃ التفکیر‘ طمعاً فی منافع یحبونھا من وارء ذلک‘ لایبالون معھا ب سخط اللّٰہ ۔‘‘[2]
’’ ا سی طرح دین کو تجارت بنانے والے ان لوگوں سے بھی یہ اندیشہ ہے جو اس منہج پر اپنی کتابیں اور فتاوی شائع کرتے ہیں اور ان کے ذریعے طاغوتوں کا قرب حاصل کرتے ہیں یا دشمنان اسلام کی خدمت کرتے ہیں ۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جو اجتہاد اور آزادی فکر کی چادر تلے دین کی بنیادوں کو ڈھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنے پسندیدہ مفادات حاصل کر سکیں اور اس عمل میں اللہ کے غیظ و غضب کی بھی ذرا برابر بھی پرواہ نہیں کرتے۔‘‘
اجتہاد کا عمل فی نفسہ ایک مستحسن أمر ہے اور ہر دور میں معاشرے کی ایک ضرورت ہے۔ اگر اس میں خارجی ماحول کی وجہ سے کچھ خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں توان خرابیوں اور نقائص کا سد باب کرناچاہیے نہ کہ مستقل طور پر اس عمل ہی کو ختم کر دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جن اندیشوں کا مذکورہ بالا عبارتوں میں تعین کیا گیا ہے‘ ان کا ازالہ اجتماعی اجتہاد کے ذریعے ممکن ہے۔ ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’لذلک لا بد أن یکون الاجتھاد جماعیاً‘ حتی ی سد الباب علی ھؤلاء الأدعیاء‘ ویحقق للأمۃ معرفتھا بشرع اللّٰہ علی أکمل وجہ وأدق بیان‘ ولیس فی ھذا حجر علی الآراء أو حکر علی التفکیر‘ وإنما ھو حمایۃ للأمۃ من البلبلۃ والتشویش فی أمر دینھا۔‘‘[3]
’’ اس لیے وقت کی یہ ضرورت ہے کہ اجتہاد‘ اجتماعی سطح پر ہونا چاہیے تا کہ اجتہاد کے نام نہاد دعویداروں کے لیے اجتہاد کے دروازے بند ہو جائیں ۔ علاوہ ازیں امت کے لیے اللہ تعالیٰ کی شریعت کا کمال درجے میں گہرا فہم بھی ممکن ہو سکے گا۔اجتماعی اجتہاد کے اس طریق کار میں انفرادی آراء پر کوئی رکاوٹ یا قرآن و سنت پر انفرادی غور پر پابندی عائد کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس سے أصل مقصود امت کو دینی معاملات میں انتشار ذہنی اور پریشانی سے بچانا ہے۔‘‘
جدید مسائل کا پیچیدہ ہونا
علوم و معارف کی ترقی اور ایجادات کے انقلاب نے مسائل کو بہت زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پرانے زمانے میں لوگوں کی معاشرت‘ رہن سہن‘ کاروبار زندگی اور روزہ مرہ کے معاملات انتہائی سادہ تھے لہٰذا ایک فقیہ اورمجتہد کے لیے واقعاتی صورت حال کو سمجھنا اور اس کے بارے میں کوئی شرعی رہنمائی فراہم کرنا آ سان تھا۔ عصرحاضر میں زندگی کے مختلف شعبے اور علوم اس طرح آ پس میں مل گئے ہیں کہ ان کی تنقیح اور چھان پھٹک کرتے ہوئے أصل واقعاتی صورت کو نکھارنا اکیلے فرد کے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فقہ الواقع کو نکھارنے کے لیے ماہرین فن کی ایک جماعت چاہیے جو مختلف علوم کی روشنی میں متعدد پہلوؤں سے واقعے کی صورت حال کو
|