ہوتے ہوئے کسی دو سری فقہ کا موقف اختیار کیا۔ا سے’تلفیق بین المذاہب‘ کہا جاتا ہے۔ ‘‘[1]
ا سی مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے مولاناأمین أحسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’دو سری اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی ریا ست کسی متعین امام کی تقلید اور کسی متعین فقہ کی پیروی کے اصول پر قائم نہیں ہو سکتی۔بلکہ یہ لازم ہے کہ اس کی بنیاد براہ را ست کتاب و سنت اور اجتہاد و شوری پر ہو۔دو سرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ پوری فقہ اسلامی بلا کسی ا ستثنا و امتیاز کے اس کا سرمایہ ہو اور وہ تما م اجتہادی امور میں کسی تخصیص و ترجیح کے بغیر مختلف أئمہ کے اجتہادات پر نگاہ ڈال کر اپنے قانون کے لیے ان اقوال اور رایوں کو انتخاب کرے جو اس کی نظر میں کتاب و سنت اور روح اسلام سے قریب تر نظر آئیں ۔جن امور سے متعلق اس کو پچھلے أئمہ کے اجتہادات میں کوئی نئی بات نہ ملے‘کتاب و سنت کے تقاضوں کوپیش نظررکھ کر وہ خود ان کا حل معلوم کرنے کی کوشش کرے۔پچھلے أئمہ کے جو اقوال انتخاب کیے جائیں گے ان میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں بھی ہو سکیں گی۔یہ عین ممکن ہے کہ آج سابق أئمہ میں سے کسی کے کسی قول کو قانون کی حیثیت دے دی جائے لیکن کل دلائل کی قوت واضح ہونے کے بعد اس کی جگہ کسی اور کے قول کو اختیار کر لیاجائے۔[2]
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’ہمارے مختلف فقہی گروہوں میں سے ہر گروہ کا مسلک و مذہب حکومت کی نگاہوں میں یکساں عزت واحترام کا مستحق ہو گا اور ہر گروہ کے لوگوں کو اس بات کاپورا پورا موقع حاصل رہے گا کہ وہ اپنے اپنے مسلک و مذہب کے دلائل اور اس کی خوبیاں برابر پیش کرتے رہیں ۔ تاکہ ہمارے أئمہ کے چھوڑے ہوئے ذخیرہ کے اندر جس قدر جواہر موجود ہیں وہ برابر نکھر نکھر کر سامنے آتے رہیں اور قانون کی تدوین کرنے والوں کو ان کے انتخاب میں آ سانی ہو۔ اس طریقہ پر حکومت اپنے عمل کے لیے جو قانون بنا لے گی ملک کا نظام ا سی قانون کے مطابق چلے گا۔ عدالتیں ا سی قانون کے مطابق مقدمات کے فیصلے کریں گی اور ہر شہری کو ان فیصلوں کی بے چون چرا تعمیل کرنی پڑی گی۔لیکن ایک شخصی رائے کی حیثیت سے ایک شخص کوئی ایسا مسلک اختیار کر سکے گا جو حکومت کے اختیار کردہ مسلک سے الگ ہو۔اور وہ اپنے اس مسلک کی حمایت میں زبان و قلم کی قوت بھی استعمال کر سکے گا۔‘‘[3]
قائلین تقنین کے دلائل
تقنین کے قائل علماء نے اس کے حق میں کئی ایک دلائل بیان کیے ہیں ‘ جن میں اکثرو بیشتر واقعاتی و منطقی ہیں ۔ ذیل میں ہم ان دلائل کا ایک مختصر تجزیہ پیش کر رہے ہیں ۔
پہلی دلیل
تقنین کا ایک اہم سبب یہ بھی بیان کیاجاتا ہے کہ اس کے ذریعے قاضیوں اور ججوں کے وہ اختلاف ختم کیے جا سکتے ہیں جو عدم تقنین کی صورت میں نصوص شریعت کی تعبیر و تشریح کے ذیل میں پیش آ سکتے ہیں ۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أن ترک القضاۃ یحکمون بما یصل إلیہ اجتھادھم یؤدی إلی فوضی واختلاف فی الأحکام للقضیۃ الواحدۃ بل وقع ھذا الاختلاف بین محکمتی التمییز فی الریاض ومکۃ المکرمۃ۔‘‘[4]
’’اگر قاضیوں کو اس بات کی کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ اپنے اجتہادات کے مطابق مقدمات کے فیصلے کریں تو یہ اختیار لا قانونیت
|