وجہ البصیرت ہمارا جواب نفی میں ہے۔‘‘[1]
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کسی اسلامی ملک میں تقنین کرتے وقت تمام فقہی مذاہب کوایک ہی اسلامی مذہب خیال کرتے ہوئے ان سب سے ا ستفادہ کیا جائے اور ان میں سے جو رائے بھی قرآن و سنت کے قریب تر اور لوگوں کی مصالح کو زیادہ پورا کرنیوالی ہو‘ اس کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے۔علاوہ ازیں تمام فقہی مذاہب سے ا ستفادہ کرتے ہوئے قانون سازی اس صورت میں ہو سکتی ہے جبکہ ایسے علماء موجود ہوں جو فقہی تعصب اورفرقہ وارانہ معاصرت سے پاک ہوں ۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ان تمام خرابیوں کا علاج یہ ہے کہ مدونین قانون اپنے سامنے کسی ایک ہی معین فقہ کو سامنے نہ رکھیں ‘ بلکہ پوری فقہ اسلامی کو سامنے رکھ کر ہر اجتہادی مسئلہ میں یہ دیکھیں کہ کون سی بات کتاب و سنت کے فحوی اور مقتضی سے زیادہ لگتی ہوئی ہے‘ اور جوبات اس پہلو سے زیادہ قوی نظر آئے اس کواختیار کر لیں ‘ اس کا تعلق ہماری مختلف فقہوں میں سے جس فقہ سے بھی ہو۔اور اگر مسئلہ کتاب و سنت سے استنباط و اجتہاد کی نوعیت کا نہ ہو‘بلکہ اس کا تعلق مصلحت اسلام و مسلمین سے ہو‘ جس کو ہمارے فقہاء استحسان اور مصالح مر سلہ وغیرہ کی اصطلاحوں سے تعبیر کرتے ہیں ‘تو پھر اس بات کو دیکھیں کہ کون سی بات مصلحت اسلام و مسلمین اور زمانہ کے تقاضوں سے زیادہ موافقت رکھتی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ اگر قانون کی تدوین اس طرح عمل میں آئے تو اس پر کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔البتہ اس بات کی ضرورت ہو گی کہ تدوین قانون کا کام ایسے لوگوں کے سپرد کیا جائے جوتعصب اور گروہ بندی سے پاک ہوں اور شریعت کے مزاج اور اسلام اور مسلمانوں کے مصالح پر نظر رکھتے ہوں ۔‘‘[2]
اس مسئلے کا ایک حل یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ پر سنل لاء(Personal Law)کی حد تک ہر مذہب کے ماننے والوں کے فیصلے ان کے مسلک کے مطابق ہوں لیکن پبلک لاء(Public Law)میں کسی ایک فقہ کے مطابق قانون سازی کر دی جائے۔ڈاکٹر ا سرار أحمد حفظہ اللہ اس رائے کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اسلامی قانون کی تدوین نو کے لیے دو طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ۔ایک یہ کہ چونکہ اس ملک کے عوا م کی عظیم اکثریت اہل سنت والجماعت حنفی ہے‘لہذا قانون سازی یعنی اجتہاد میں مسلک حنفی کے اصولوں ہی کو مدنظر رکھا جائے۔جی سے کہ ایران میں یہ طے کر دیاگیاہے کہ یہاں کا پبلک لاء فقہ جعفریہ کے مطابق ہو گااور باقی سب جتنے سنی مسلمان وہاں پر ہیں انہیں اپنے پر سنل لاء میں پوری آزادی ہو گی۔یعنی نماز جس وقت چاہیں پڑھیں ‘ روزہ جس وقت چاہیں بند کریں اور جس وقت چاہیں کھولیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک ملک میں پبلک لاء تو دو نہیں ہو سکتے۔شیعہ اکثریت کے ملک میں وہ فقہ جعفریہ ہی ہوگا۔ اس طرح پاکستان میں یہ طے کر دیا جائے کہ یہاں پر پارلیمنٹ کے اندرقانون سازی کا جو عمل ہو گاوہ فقہ حنفی کے اصولوں کے مطابق ہو گا۔اگر ایسا ہو جائے تو یہ بھی ایک در ست طریق کار ہوگا۔‘‘[3]
اس پر اعتراض یہ وارد کیا گیا ہے کہ پبلک لاء میں بھی ایک معین فقہ کے مطابق قانون سازی کی صورت میں مندرجہ بالا اعتراض برقرار رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ محترم ڈاکٹر ا سرار حفظہ اللہ نے اس تجویز کو پیش کرنے کے معاً بعد ایک دو سری تجویز بھی پیش کی ہے جو اس کی نسبت زیادہ قابل عمل بھی ہے اور خود ان کے نزدیک راجح بھی۔ وہ لکھتے ہیں :
’’لیکن ایک دو سرا را ستہ یہ ہے کہ اہل سنت کی چاروں فقہوں سے ا ستفادہ کیا جائے۔فقہ حنفی‘ فقہ مالکی‘ فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کے أئمہ فقہاء کو ہم یہ سمجھیں کہ یہ سب ہمارے بزرگ ہیں ‘ یہ سب اہل سنت کے ا ٔئمہ ہیں ۔چناچہ ان سب کے اجتہادات کو ایک مشترکہ وراثت علمی سمجھا جائے‘ اور بنیادی طور پر یہ بات طے ہوجائے کہ قانون سازی میں کتاب و سنت کی حدود سے تجاوز نہیں ہوگا۔ان دونوں باتوں میں سے میرے نزدیک دو سری بات بہت بہتر ہے۔اوربعض معاملات میں ہمارے سامنے ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے حنفی
|