Maktaba Wahhabi

203 - 214
عموماً ایک ہی ریا ست میں مختلف مذاہب اسلامیہ کے متبعین پائے جاتے ہیں ۔ پس اگر کسی خطہ ارضی میں اکثریتی فقہ کونافذ کر دیا گیا تو دو سرے مذاہب کے حاملین اس پر کبھی بھی مطمئن نہ ہوں گے۔ماضی قریب میں تقنین کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں ‘ ان میں عموماً یہی ہوا ہے کہ اس ملک میں جس فقہ کے پیروکار زیاد ہ تھے‘ اس کے مطابق قانون سازی کر دی گئی۔ جس کا نتیجہ دو سری فقہی مذاہب کے ماننے والوں میں ریا ست کے قانون پر عدم اطمینان اور تنقید کی صورت میں سامنے آیا۔ اس طرح امت مسلمہ میں لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی فقہی قانون سازی کی کوئی فکر پیش کی گئی ہے تو اہل الحدیث مکتبہ فکر نے اس کی مخالفت کی ہے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ تقنین در اصل اہل الحدیث کو فقہ حنفی کا پابند و مقلد بنانے کی ایک اجتماعی سازش ہے لہذا وہ کسی صورت بھی اس کو قبول نہ کریں گے۔ اس صورت حال میں تقنین کا تجربہ کرنا در اصل دو مختلف فقہی مکاتب فکر کو باہم د ست و گریباں کرنے کے مترادف ہے۔ مولاناأمین أحسن اصلاحی رحمہ اللہ اس بارے لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’تیسرا شبہ یہ ہے کہ جس ملک کے اندر مختلف فقہی مذاہب کے پیرو بس رہے ہوں ‘ وہ اس قسم کے کسی ضابطہ پر کس طرح مطمئن ہوں گے؟ وہ اس بات پر تو مطمئن ہو سکتے ہیں کہ اس ملک کی عدالتیں معاملات کے فیصلے کتاب و سنت کی روشنی میں کریں ‘ کیونکہ کتاب و سنت ان سب کے درمیان مشترک ہے‘ لیکن ان کے لیے کسی خاص ضابطہ قانون پر مطمئن ہونا نہایت مشکل ہے۔ اس صورت میں وہ بجا طور پر یہ شبہ کر سکتے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی ایسی فقہ لد جائے گی جس کے کچھ حصے یا بڑے حصے کو وہ سرے سے صحیح تسلیم ہی نہ کر رہے ہوں ۔‘‘[1] ایک اور جگہ مولانا لکھتے ہیں کہ اسلامی سلطنت کی بنیادی شرائط میں یہ بات داخل ہے کہ وہ قرآن و سنت پر قائم ہواور عامۃ الناس کو کسی معین فقہ کا جبراًپابند نہ بنایا جائے۔وہ فرماتے ہیں : ’’ماضی میں جو حکومتیں کسی متعین فقہ کی تقلید کے اصول پر قائم ہوئیں یا آج جو اس اصول پر قائم ہیں یہ صحیح اسلامی حکومت کا نمونہ نہیں ہیں ۔ کسی متعین فقہ کو نہ تو کتاب و سنت کا بدل قرار دیا جا سکتا اور نہ فقہ کے مختلف أئمہ میں سے کسی امام کو ر سول اللہ کا درجہ دیا جا سکتا۔ اس لیے اس طرح کی حکومتوں کو اسلامی حکومت کہنا اسلامی نظریہ سلطنت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلامی سلطنت کی یہ بنیادی شرط ہے کہ اس کی ا س اس براہ را ست کتاب و سنت اور اجتہاد و شوری پر ہو۔یہ حکومتیں اس کے بالکل برعکس یا تو اس اصول پر قائم ہوئیں کہ جو فقہی مذہب حکمران کا ہوا‘ اس نے ا سی مذہب کو سارے ملک پر لا د دینا چاہا یا ملک کے باشندوں کی اکثریت جس فقہی مذہب کی پابند تھی ا سی کو پورے ملک کا مذہب بنا دیاگیا۔ یہ دونوں باتیں اسلامی نظریہ سلطنت کے خلاف ہیں ۔ ‘‘[2] مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ تقنین کو ہم اجتہاد کا نام نہیں دے سکتے بلکہ عصر حاضر میں تقنین در حقیقت عامۃ الناس اور علماء کو ایک فقہی مذہب کا پابند بنانے کا ایک ذریعہ اور و سیلہ ہیں : ’’ تقنین اپنے الفاظ میں کسی خاص تعبیر و تدوین شریعت کو قانونی جامہ پہنانے کا نام ہے جو حتمی امر ہو کر ایک طرف شریعت سازی اور خدائی اختیارات میں دخل اندازی کا موجب بنتی ہے تو دو سری طرف ا سے اجتہاد بھی نہیں قرار دیا جا سکتاکیونکہ اجتہاد سے تو شریعت کی و سعتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ تقنین سے فرد و معاشرہ کو ایک خاص تعبیر شریعت کی تقلید کا پابند قرار دے کے اجتہاد کے دروازے ان پر بند کر دیے جاتے ہیں ۔قرآن مجید کی نظر میں اس کا نام ’إصر وأغلال‘ ہے۔‘‘ [3] ایک جگہ مولانا فرماتے ہیں : ’’حاصل یہ ہے کہ اجتہاد ‘ تدوین اور تقنین الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور ان کو باہم خلط ملط کرنے سے موضوع زیر بحث اختلافی بن رہا ہے‘ ورنہ اصل مسئلہ صرف اس قدر ہے کہ وحی( شریعت)کے علاوہ اہل علم کے لیے کسی قدیم یا جدید اجتہاد کی تقلید ضروری ہے یا نہیں ؟اور علی
Flag Counter