زمانی مصلحتوں کو بھی پورا کرنے والی ہو۔‘‘
اس تعریف میں بھی ’علماء کے اتفاق‘ کی قید محل نظر ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ ایک تیسری ممکنہ تعریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’أو ھو اتفاق أکثر مجتھد علی حکم شرعی بعد بذلھم غایۃ و سعھم فی ا ستنباطہ من أدلتہ۔‘‘[1]
’’یا اجتماعی اجتہاد سے مراد اکثر مجتہدین کا‘ کسی مسئلے کے شرعی حکم کو اس کے دلائل شرعیہ سے مستنبط کرنے کے لیے‘ اپنی کوششیں انتہائی درجے میں کھپا تے ہوئے اس کے حکم پر اتفاق کر لیناہے۔‘‘
اس تعریف میں بھی ’علماء کے اتفاق‘ کی قید اضافی ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ اجتماعی اجتہاد کی ایک اور تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ویطلق الآن علی اتفاق أکثر من فقیہ أو باحث متخصص فی الفقہ وإن لم یبلغ مرتبۃ الاجتھاد بعد بذلھم غایۃ و سعھم فی استنباط حکم شرعی من أدلتہ وھذا ھو الغالب الشائع فی المجامع الفقھیۃ المعاصرۃ۔‘‘[2]
’’آج کل کے زمانے میں اجتماعی اجتہاد سے مراد فقہاء یا علم فقہ میں تخصص و تحقیق کرنے والے طلباء ‘ جو ابھی درجہ اجتہاد کو نہ پہنچے ہوں ‘ کا کسی مسئلے کا شرعی حکم أدلہ شرعیہ سے أخذ کرتے ہوئے اپنی محنتوں کو انتہائی درجے میں کھپا دینا اور پھر ان کی اکثریت کا اس مسئلے کے شرعی حکم پر اتفاق کرلینا ہے اور اجتماعی اجتہاد کایہی معنی معاصر فقہی اکیڈمیوں میں غالب اور عام ہے۔‘‘
اس تعریف میں بھی ’علماء کے اتفاق‘ کی قید ایک اضافی قید ہے۔ا سی طرح اکثریت کی قید لگانا بھی در ست نہیں ہے کیونکہ اس کا پورا ہونا ایک مشکل أمر ہے جیسا کہ ہم سابقہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں ۔
پانچویں تعریف
ڈاکٹر یو سف القرضاوی حفظہ اللہ نے اجتماعی اجتہاد کے عمل کو درج الفاظ کے ذریعے بیان کیا ہے:
’’ینبغی فی القضایاۃ الجدیدۃ أن ننتقل من الاجتھاد الفردی إلی الاجتھاد الجماعی وھو الذی یتشاور فیہ أھل العلم فی القضایا المطروحۃ‘ وخصوصاً فیما یکون لہ طابع العموم ویھم جمھور النا س۔‘‘[3]
’’جدید مسائل میں ہمیں انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہاد کے منہج کو اختیار کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل و واقعات میں اہل علم کی ایک جماعت باہمی مشاورت کرتی ہے ‘ خاص طور پر ان مسائل میں جو عمومی نوعیت کے ہوں اورعوام الناس کی اکثریت ان سے پریشان ہو۔‘‘
اجتماعی اجتہاد کی یہی تعریف ڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ نے بھی کی ہے۔[4]
اس تعریف میں عمومی نوعیت کے مسائل کی قید ایک اضافی قید ہے۔ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’عبارۃ:(طابع العموم)(ویہم جمہور النا س)و(ذات طابع عام)فھذہ القیود عند التحقیق غیر لازمۃ فلو أن الاجتھاد الجماعی جری فی مسألۃ خاصۃ أو ذات طابع خاص لصدق علیہ أنہ اجتھاد جماعی۔‘‘[5]
|