Maktaba Wahhabi

181 - 214
سنے تھے تو سحنون رحمہ اللہ نے اس کو پابند کیا کہ وہ اہل مدینہ کے مذہب کے مطابق ہی فیصلہ کرے۔‘‘ مذہب شافعی شافعیہ کے نزدیک حکمران چاہے مجتہد ہو یا مقلد‘ دونوں صورتوں میں کسی مجتہد قاضی کو کسی معین مذہب یا امام کے فتاوی کے مطابق فیصلوں پر مجبور نہیں کر سکتا ۔أبو الحسن علی بن محمد بن حبیب الماوردی رحمہ اللہ متوفی ۴۵۰ھ لکھتے ہیں : ’’ فلو شرط المولی وھو حنفی المذھب علی من ولاہ القضاء ألا یحکم الا بمذھب الشافعی أو أبی حنیفۃ فھذا علی ضربین: أحدھما أن یشترط ذلک عموماً فی جمیع الأحکام فھذا شرط باطل سواء کان موافقاً لمذھب المولی أو مخالفاً لہ وأما صحۃ الولایۃ فان لم یجعلہ شرطاً فیھا وأخرجہ مخرج الأمر أو مخرج النھی وقال: قد قلدتک القضاء فاحکم بمذھب الشافعی رحمہ اللّٰہ علی وجہ الأمر أو لا تحکم بمذھب أبی حنیفۃ علی وجہ النھی کانت الولایۃ صحیحۃ والشرط فا سدا سواء تضمن أمراً أو نھیاً ویجوز أن یحکم بما أداہ اجتھادہ إلیہ سواء وافق شرطہ أو خالفہ ویکون اشتراط المولی لذلک قدحاً فیہ إن علم أنہ اشترط ما لایجوز لا یکون قدحاً إن جھل لکن لا یصح مع الجھل بہ أن یکون مولیاً ولا وإلیاً فان خرج ذلک مخرج الشرط فی عقد الولایۃ فقال: قد قلدتک القضاء علی ألا تحکم فیہ إلا بمذھب الشافعی أو بقول أبی حنیفۃ کانت الولایۃ باطلۃ لأنہ عقدھا علی شرط فا سد وقال أھل العراق: تصح الولایۃ ویبطل الشرط۔‘‘[1] ’’اگر حنفی حکمران کسی شخص کو قاضی بناتے وقت یہ شرط عائد کر دے کہ قاضی مذہب شافعی یا مذہب أبو حنیفہ کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ایک صورت تو یہ ہے کہ حکمران یہ شرط عمومی طور پر تمام احکام میں لگائے۔ پس اس قسم کی شرط باطل ہے‘ چاہے حکمران کے مذہب کے موافق ہو یا مخالف ہو۔جہاں تک قاضی کی ولایت کی صحت کامعاملہ ہے تو اگر تو حکمران نے اس کو(عقد میں )شرط نہ بنایا ہو بلکہ ایسا کرنے کاحکم جاری کیا ہو یا اس سے منع کیا ہومثلاً وہ یہ کہے: میں نے تجھے قضاء کا عہدہ عنایت کیا‘ پس تو مذہب شافعی کے مطابق فیصلہ کر یاتو مذہب أبو حنیفہ کے مطابق فیصلہ نہ کر‘ پس اس صورت میں ولایت صحیح ہو گی لیکن شرط جو أمر یا نہی کی صورت میں ہے‘ فا سد ہو گی۔ اور قاضی کے لیے یہ جائز ہو گا کہ وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے‘ چاہے وہ اجتہاد حکمران کی شرط کے موافق ہو یا مخالف ہو۔اگرتو حکمران کو یہ علم تھا کہ یہ شرط لگانا ناجائز ہے تو ولایت میں حکمران کا ایسی شرط لگاناقابل عیب ہوگا اوراگر حکمران کو اس کا علم نہ ہو(کہ شرط لگانا ناجائز ہے)تو یہ عمل قابل عیب بھی نہ ہوگالیکن اس قسم کے مسائل سے لاعلمی کے ساتھ کسی کاوالی(حکمران ہونا)یا مولی(ولایت دینے ولا)ہونا صحیح نہیں ہے۔(شرط لگانے کی دو سری صورت یہ ہے کہ)حکمران اس کو عقد ولایت کی شرط بنائے اور کہے: میں نے تجھے قضاء کاعہدہ دیا اس شرط پر کہ تو صرف مذہب شافعی یا امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق فیصلہ کرے گاتو اس صورت میں ولایت باطل ہو گی کیونکہ حکمران نے ایک فا سد شرط کی بنیاد پریہ عقد کیا ہے۔اہل عراق یہ کہتے ہیں : اس صورت میں ولایت تو در ست ہوگی لیکن شرط باطل ہوگی۔ ‘‘ أبو ا سحاق ابراہیم بن علی بن یو سف شیرازی رحمہ اللہ متوفی ۴۷۶ھ فرماتے ہیں ۔ ’’ولا یجوز أن یعقد تقلد القضاء علی أن یحکم بمذھب بعینہ لقولہ عزوجل ﴿ فَاحْکُمْ بَیْنَ الناس بِالْحَقِّ ﴾ والحق ما دل علیہ الدلیل وذلک لایتعین فی مذھب بعینہ فإن قلد علی ھذا الشرط بطلت التولیۃ لأنہ عقدھا علی شرط وقد بطل الشرط فبطلت التولیۃ۔‘‘[2] ’’حکمران کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کو اس شرط پر قاضی بنائے کہ وہ کسی معین مذہب کے مطابق فیصلہ کرے کیونکہ ارشاد باری
Flag Counter