تعالیٰ ہے: ’ پس آپ لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ فرما دیں ‘۔اور حق وہ ہے جس پر کوئی دلیل رہنمائی کرے اور حق کسی ایک مذہب میں متعین نہیں ہو سکتا۔ پس اگر حکمران نے اس شرط پر کسی کوقاضی بنایا تو یہ ولایت باطل ہو گی کیونکہ اس نے ایک باطل شرط کی بنیاد پر یہ عقد کیا پس یہ عقد بھی باطل ہوگا۔‘‘
مذہب حنبلی
حنابلہ کا موقف بھی یہی ہے کہ حکمران کے لیے یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کسی قاضی کو کسی معین فقہ کے مطابق فیصلوں پر مجبور کرے۔ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ متوفی ۶۳۰ھ لکھتے ہیں :
’’ ولا یجوز أن یقلد القضاء لواحد علی أن یحکم بمذھب بعینہ وھذا مذھب الشافعی ولم أعلم فیہ خلافا لأن اللّٰہ تعالیٰ قال:﴿ فَاحْکُمْ بَیْنَ الناس بِالْحَقِّ ﴾ والحق لا یتعین فی مذھب وقد یظھر لہ الحق فی غیر ذلک المذھب فإن قلدہ علی ھذا الشرط بطل الشرط۔‘‘[1]
’’حکمران کے لیے جائز بالکل بھی نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو اس شرط پر حکمران بنائے کہ وہ کسی معین مذہب کے مطابق فیصلہ کرے گا‘ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کامذہب ہے اور مجھے اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ پس آپ لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ فرما دیں ‘اور حق کسی ایک متعین مذہب میں محصور نہیں ہے۔بعض اوقات قاضی کو حق کسی دو سرے مذہب میں نظر آتا ہے۔ پس اگرحکمران اس شرط پر کسی کو قاضی بنائے تو یہ شرط باطل ہوگی۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ متوفی ۷۲۸ھ نے بھی اس مسئلے میں علماء کااتفاق نقل کیا ہے ‘ وہ لکھتے ہیں :
’’ وأما إلزام ال سلطان فی مسائل النزاع بالتزام قول بلا حجۃ من الکتاب والسنۃ فھذا لایجوز باتفاق المسلمین ولایفید حکم حاکم بصحۃ قول دون قول فی مثل ذلک إلا إذا کان معہ حجۃ یجب الرجوع إلیھا فیکون کلامہ قبل الولایۃ وبعدھا سواء۔‘‘[2]
’’اور جہاں تک سلطان کا اختلافی مسائل میں قاضی کو قرآن و سنت کی کسی دلیل کے بغیر مجرد ک سی( امام)کے قول کا پابند کرنا ہے تو یہ باتفاق المسلمین جائز نہیں ہے۔ا سی طرح کے مسائل میں حکمران کا ایک قول کو چھوڑ کر دو سرے قول کی صحت کاحکم جاری کرناصرف ا سی صورت میں ہی مفید ہے جبکہ اس قول کے ساتھ کوئی ایسی دلیل بھی ہو جس کی طرف رجوع واجب ہو۔ پس حکمران کا یہ کلام قاضی کو ولایت سونپنے سے پہلے ہویا بعد میں ہو‘ برابر ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کو شرعاً ناجائز قرار دینے کے باوجود ف ساد‘ بگاڑ اور ظلم سے بچنے کے لیے مجبوراًبعض صورتوں اور حالات میں اس کی اجازت دی ہے کہ حکمران کسی قاضی کو کسی معین مذہب کے مطابق فیصلوں کا پابند بنائے۔امام صاحب لکھتے ہیں :
’’ولو شرط الإمام علی الحاکم أو شرط الحاکم علی خلیفتہ أن یحکم بمذھب معین بطل الشرط وفی فساد العقد وجھان ولاریب أن ھذا إذا أمکن القضاۃ أن یحکموا بالعلم والعدل من غیر ھذا الشرط فعلوا فأما إذا قدر أن فی الخروج عن ذلک من الف ساد جھلاً وظلماً أعظم مما فی التقدیر کان ذلک من باب دفع أعظم الف سادین بالتزام أدناھما۔‘‘[3]
’’اگر امام حاکم پر یا حاکم اپنے نائب پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ کسی معین مذہب کے مطابق فیصلہ کرے تو یہ شرط باطل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر قاضیوں میں اس کی صلاحیت ہو کہ وہ اس(یعنی کسی معین مذہب کی پابندی کی)شرط کی عدم موجودگی میں علم و عدل سے
|