Maktaba Wahhabi

141 - 214
فقہ اسلامی کی تدوین نو عصر حاضر میں کتابت کے انداز و أ سلوب میں نمایاں تبدیلیوں کی وجہ سے فقہ اسلامی کے ذخیرے کو أز سر نو ایک نئی‘ آ سان فہم اور جدید أ سلوب کے مطابق ترتیب دینے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ علماء کے علاوہ وکلاء‘ عوام الناس اور جج حضرات بھی اس فقہی ذخیرے تک ر سائی حاصل کر سکیں ۔ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ کسی ایک فرد کے لیے ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے بلکہ علماء‘ فقہاء اور ماہرین قانون کی ایک جماعت مل کر یہ کام کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر محمود غازی لکھتے ہیں : ’’ انی سویں صدی کے و سط تک فقہ اسلامی ایک غیر مدون قانون تھی جس کا میں تفصیل سے تذکرہ کرچکا ہوں ۔ اس کی حیثیت انگل ستان کے ایک کامن لاء کی سی تھی۔جو باقاعدہ دفعات کی شکل میں مرتب نہ تھا۔۔۔یہی کیفیت فقہ اسلامی کی تھی کہ فقہ کی وہ کتابیں ‘ جن میں بعض کا کل میں نے تذکرہ کیا ہے‘ وہ اور اس طرح کی ہزاروں کتابیں کتب خانوں میں موجود تھیں ۔ قاضی صاحبان ان کتابوں سے ا ستفادہ کر کے یہ طے کرتے تھے کہ یہ فتوی یا قول یا یہ اجتہاد یہاں اس صورت حال میں متعلق اور relative ہے اور اس معاملہ میں اس کو منطبق کیا جانا چاہیے۔ اس کی بنیاد پر وہ مقدمات کا فیصلہ کر دیا کرتے تھے۔ ان اجتہادات یا فتاوی کا حکمرانوں یا حکومتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔۔۔یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس سے اہل مغرب مانو س نہیں تھے۔ ان کے تاجر یہ جاننا چاہتے تھے کہ جس قوم اور ملک کے لوگوں سے وہ تجارت کر رہے ہیں اس کے ہاں تجارت کے احکام کیاہیں ۔ اس کی وجہ سے اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ یہ قوانین جو ہزاروں کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں جن سے نہ ہر شخص واقف ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہر شخص اس و سیع ذخیرہ کا ماہر ہو سکتا ہے۔ لوگوں کی ضرورت کی خاطر اس کو ایک الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے۔ خاص طور پر مسلمان تاجروں اور ان سے معاملہ کرنے والے غیر مسلم تاجروں کو اس کی ضرورت روز پیش آتی تھی۔‘‘[1] مختلف فقہی مکاتب فکر کا باہم ربط و تعلق انفردای اجتہاد کی صورت میں ایک مجتہد عموماً دو سرے مکاتب فکر کے علماء کے موقف سے تو کسی حد تک آگاہ ہوتا ہے لیکن اس موقف کی شرعی بنیادیں یا اس کی دلیل کی قوت اس پر ا سی صورت واضح ہوتی ہے جب ا سے مخالف رائے رکھنے والے علماء سے مل بیٹھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ باہمی میل جول سے محبت و أخوت کی فضا بڑھتی ہے اور خواہ مخواہ کے سوئے ظن اور الزام تراشیوں میں کمی آتی ہے۔ سلف صالحین اس باہمی ربط کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ا سی اہتمام کا یہ نتیجہ تھا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے امام محمد رحمہ اللہ کی اور امام محمد رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ اور امام أحمد رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کی شاگردی اختیار کی۔ مولانا محمد زاہد حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’دو سری صدی ہجری میں ‘ اور تیسری صدی کے أوائل میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان ربط اور باہمی ا ستفادے کا جو سلسلہ تھا‘ اس کی کچھ جھلک اوپر کی سطور میں دیکھی جا چکی ہے‘ اس کے باوجود جہاں جہاں ایک دو سرے کو پورے طور پر سمجھا نہیں گیا‘ وہاں غلط فہمیاں بلکہ محاذ آرائیاں پیدا ہوتی رہی ہیں ۔ چناچہ امام أحمد رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ کے اہل علم پر اح سانات شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ ہم اہل رائے کو بر ابھلا کہتے رہے اور وہ ہمیں ‘ یہاں تک کہ شافعی رحمہ اللہ آئے اور انہوں نے ہم دونوں کو جمع کر دیا۔‘‘[2] آج ذرائع و ابلاغ کی ترقی نے علماء کے اس باہمی رابطے کو آ سان کردیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس رابطے کا بہت فقدان ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی مجال س نے اس خلاء کو پر کرنا شروع کیا ہے۔ اس وقت اجتماعی اجتہاد کے لیے جو فقہی مجال س موجود ہیں ‘ ان کی دو قسمیں ہیں ۔ بعض مجال س تو ایک ہی مسلک کے علماء پر مشتمل ہوتی ہیں جیساکہ’ہیئۃ کبار العلماء‘ السعودیۃ‘ہے ۔ جبکہ بعض دو سری مجال س میں تمام مکاتب فکر کو متنا سب نمائندگی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ’مجمع البحوث الاسلامیۃ ‘ الأزھر‘ہے۔واقعہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں
Flag Counter