Maktaba Wahhabi

199 - 214
چوتھی دلیل تہذیب و تمدن کی ترقی اور بعض دو سرے أ سباب کے تحت ایسے نئے نئے واقعات اور حوادث پیش آتے رہتے ہیں کہ جن کے بارے پہلے سے کوئی قانون موجود نہیں ہوتا۔ اس صورت میں یا تو قاضی ان نئے پیش آنے والے مقدمات میں اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے گا یا کسی قانون کے بننے کا انتظار فرمائے گا۔پہلی صورت میں تقنین کا نقص ظاہر ہو گا جبکہ دو سری صورت قابل عمل نہیں ہے۔شیخ بکر أبو زید حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ إن الحوادث متکاثرۃ والوقائع متجددۃ فإذا وقع شیء من ذلک لدی قاض ما فإذا؟ ھل یکون إرجاء الحکم حتی یلقن الحکم من لجنۃ الإختیار أم ماذا؟ أم یسیر علی ھدی الشریعۃ ودلھا فیعمل رأیہ فی ا ستظھار الحکم۔‘‘[1] ’’نئے نئے حوادث اور واقعات کثرت سے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ پس جب کوئی نیا واقعہ یا حادثہ قاضی کے سامنے آئے گا تو وہ اس وقت کیا کرے گا؟ کیا وہ اس مقدمے میں اپنے فیصلے کو اس وقت تک کے لیے مؤخر کر دے گا جب تک کہ اس کو مجلس اختیار(یعنی پارلیمنٹ وغیرہ) سے اس بارے میں کسی فیصلے کی اجازت نہ ملے یا وہ کیا کرے گا؟یا وہ شریعت کی ہدایت اور رہنمائی پر چلتے ہوئے اس مسئلے میں شرعی حکم کی تلاش میں اجتہاد کرے گااور اپنی رائے پر عمل کرے گا۔ ‘‘ مثال کے طور پر کمپیوٹر اورموبائل سے متعلقہ جرائم کے بارے میں کسی قانون سازی تک پہنچنے میں سالہا سال لگ گئے۔پاکستان میں حال ہی میں سائبر کرائمزcyber crimes))اور فحشپیغامات((messagesکے حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے۔ پانچویں دلیل فقہی اقوال کی ایک کثیر تعداد میں فتوے کی بنیاد عرف ہوتا ہے۔ پس اگر راجح فقہی اقوال کی تقنین کی گئی تو عرف کے بدلنے کی صورت میں یہ قوانین بے اثر ہوجائیں گے۔ظروف و احوال بدلتے رہتے ہیں اور بعض مسائل میں عرف کے تبدیل ہونے سے شرعی حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ پس عرف کے بدل جانے کی صورت میں قاضی یا جج متعین قانون کو کیسے لاگو کرے گا؟۔ اس صورت حال میں یا تو قاضی اجتہاد کرے گا یا پھر نئے عرف کے مطابق نئے قانون کے بننے کاانتظار‘ یہاں بھی پہلی صورت میں تقنین کا نقص ظاہر ہوتاہے جبکہ دو سری صورت قابل عمل نہیں ہے۔شیخ بکر أبو زید حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ إن فی التقنین الملزم بہ حجراًعلی الأحکام الاجتھادیۃ إذا یمنع مثلا تغیر الفتوی بتغیر الزمان ومن المعلوم أن من قواعد الشریعۃ تغیر الفتوی بتغیر الأزمنۃ والأحوال۔‘‘[2] ’’ تقنین کے الزام کی صورت میں اجتہادی احکام(اور اجتہادی عمل)میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔مثلاً تقنین ایک اجتہادی ضابطے ’تغیر الفتوی بتغیر الزمان‘میں رکاوٹ کا باعث بنے گی۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ قواعد شرعیہ میں سے ایک بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ احوال زمانہ کی تبدیلی سے فتوی بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔‘‘ چھٹی دلیل تقنین پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ تقنین کی صورت میں قاضی کا فیصلہ جہالت کی بنیاد پر فیصلے کادو سرا نام ہے۔شیخ عبد الرحمن بن سعد الشثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’إذا حکم القاضی بالتقنین فھل سیقول إن ھذا ھو دین اللّٰہ الذی أر سل بہ ر سولہ صلي اللّٰه عليه وسلم وأنزل بہ کتابہ
Flag Counter