Maktaba Wahhabi

178 - 214
فصل دوم اجتماعی اجتہاد کی شرعی حیثیت اور تنفیذ اجتماعی اجتہاد میں مختلف اہل علم و ماہرین فن مل کر کسی مسئلے میں غور و فکر کرتے ہیں ۔ پس اس کا ایک قابل تعریف پہلو تو یہ ہے کہ انفرادی اجتہاد کی نسبت اس میں صحیح و معتدل رائے تک پہنچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ اس اجتہاد کو ایک دو سرے زاویے سے مفید بنانے کے لیے بعض علماء نے اس کی بنیاد پر کسی اسلامی ریا ست کی قانون سازی کی تجاویز بھی پیش کی ہیں ۔اجتہاد چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی‘ اس کی روشنی میں قانون سازی کی کس قدر گنجائش موجود ہے ‘ اس میں أئمہ سلف کا شروع ہی سے اختلاف رہا ہے۔امام مالک رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم پچھلی فصل میں یہ بات نقل کر چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے اجتہادی فیصلوں کو قانون بنانے اور پھر انہیں اسلامی ریا ست کے تمام شہریوں پر نافذ کرنے کی رائے کو پسند نہیں فرمایا۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک کسی اجتہاد کو قانون سازی کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتاہے کیونکہ ایک ہی مسئلے میں أئمہ‘ أئمہ تو کیا صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے بھی اختلافات ہوتے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی دو سرے پر اپنی رائے واجتہاد کو جبراً نافذ کرنے کے حق میں نہیں تھا۔فقہائے متقدمین نے اس نکتے کے بارے مفصل بحث کی ہے کہ کیا کوئی خلیفہ کسی قاضی کو کسی خاص فقہی مذہب کی پابندی یا اس کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتاہے؟۔جمہور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے حکمران کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی قاضی یا جج کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ کسی معین مذہبی رائے کے مطابق قضیوں کا فیصلہ کرے۔جبکہ فقہاء کے ایک گروہ کی رائے اس کے برعکس ہے۔ذیل میں ہم دونوں گروہوں کے موقف اور دلائل کو بیان کر رہے ہیں ۔ تدوین و تقنین فقہ کے بارے مذاہب أربعہ کا نقطہ نظر کیا کوئی حکمران کسی ایسے قاضی کو جو درجہ اجتہاد پر فائز ہو‘ اس بات کا پابند بنا سکتا ہے کہ وہ کسی معین فقہی مذہب کے مطابق فیصلے کرے‘ چاہے اس کا اجتہاد اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو؟ اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے ۔ اس بارے دو اقوال مروی ہیں ۔جمہور علماء یعنی مالکیہ‘ شافعیہ‘ حنابلہ اور اہل الحدیث کا قول یہ ہے کہ کسی حاکم کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی قاضی کو کسی خاص مذہب کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند کرے۔ابن قدامہ رحمہ اللہ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس قول پر علما ء کا اتفاق بھی بیان کیا ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن بن أحمد الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ لا یجوز إلزام القاضی بالحکم بمذھب معین واشتراطہ علی القاضی باطل غیر ملزم وھو قول عند المالکیۃ والراجح عند الشافعیۃ وبہ قال الحنابلۃ وقال ابن قدامۃ لا أعلم فیہ خلافاً۔‘‘[1] ’’قاضی کو کسی معین مذہب کے مطابق فیصلے کرنے کا پابند بنانا جائز نہیں ہے۔اور قاضی کو عہدہ قضاء دیتے وقت اس قسم کی شرط لگانا باطل اور غیر لازم ہے ۔ یہ قول(جمہور)مالکیہ کا ہے ‘ شافعیہ کے نزدیک راجح ہے اور حنابلہ بھی ا سی کے قائل ہیں ۔ابن قدامہ رحمہ اللہ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مجھے اس مسئلے میں علماء کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔‘‘ یہ قول صاحبین کا بھی ہے ۔ شیخ عامر بن عی سی اللھو اس بارے میں دو بنیادی اقوال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’القول الأول: لایجوز للحاکم الاشتراط علی القاضی بالحکم بمذھب معین وھذا قول الجمھور من المالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ کما أنہ قول القاضی أبی یوسف ومحمد بن الحسن صاحبی أبی حنیفۃ وقال ابن قدامۃ ولم أعلم فیہ خلافاً وھو اختیار شیخ الاسلام ابن تیمیۃ وقدحکی الاتفاق علی ذلک۔‘‘[2]
Flag Counter