’’المجال الثانی: مجال الطب الحدیث۔فمما لا ریب فیہ أن العلم بما قدمہ من اکتشافات ھائلۃ تکنولوجیا متقدمۃ‘ وما وضع فی ید الانسان من إمکانات تشبہ الخوارق فی العصور الماضیۃ وخصوصاً فی المجال الطبی‘ قد أثارت مشکلۃ کثیرۃ تبحث عن حل شرعی وت ساؤلات شرعی تتطلب الجواب من الفقہ الاسلامی وتقتضی من المجتھد المعاصر أن یبذل جھدہ وی ستفرغ و سعہ فی استنباط الحکم المنا سب لھا۔‘‘[1]
’’دو سرا میدان جدید طب کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت بڑی مقدار میں جدید انکشافات ‘ٹیکنالوجی کی ترقی اور ماضی میں انسان کے ہاتھ میں جو خرق عادت واقعات سے متشابہ أمورکے امکان کی صلاحیت رکھ دی گئی تھی‘ خصوصاً طب کے میدان میں ‘ اس نے مختلف مسائل اور سوالات کے شرعی حل کے بارے میں ایک بہت بڑی مشکل پیدا کردی ہے۔(مسائل کا یہ انبار)فقہ اسلامی سے جواب کا متقاضی ہے اور ا سی طرح معاصر مجتہد سے بھی یہ چاہتا ہے کہ وہ ان مسائل کے لیے منا سب شرعی احکام مستنبط کرنے میں اپنی پوری کوشش اور قوت صرف کر دے۔‘‘
منصوص اور مجمع علیہ مسائل میں اجتماعی اجتہاد
منصوص اور مجمع علیہ مسائل میں اجتہاد جائز نہیں ہے۔ لہذا وہ مسائل کہ جن میں کوئی صریح نص وارد ہوئی ہو اور وہ نص قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ بھی ہو یا کسی ظنی الثبوت نص کے ثبوت یامفہو م پر امت کا اجماع ہو تو ایسے مسائل اجتماعی اجتہاد کے دائرہ کار میں داخل نہیں ہیں ۔ڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’من المتفق علیہ أن النصوص القطعیۃ فی ثبوتھا‘ وفی دلالتھا من القرآن الکریم‘ والسنۃ المتواترۃ‘ سواء أکانت معلومۃ من الدین بالضرورۃ‘ کوجوب الصلوات الخم س‘ والزکاۃ‘ والصیام‘ والحج‘ وحرمۃ الزنا‘ وال سرقۃ والقتل‘ أم کانت من الأمور التی تخفی علی بعض الناس کأنصبۃ المواریث‘ أو کانت من المقدرات الشرعیۃ التی لا مجال فیھا للاجتھاد‘ کل ذلک لا مجال فیھا للاجتھاد۔ومثل ذلک الأحکام التی تثبت بالإجماع الصریح المنقول إلینا بالتواتر۔فھذان النوعان لا مجال للاجتھاد فیھما۔‘‘[2]
’’یہ بات علماء کے ہاں متفق علیہ ہے کہ قرآن و سنت متواترہ کی قطعی الدلالۃ و قطعی الثبوت نصوص میں اجتہاد نہیں ہے‘ چاہے وہ ضروریات دین سے متعلق ہوں جیسا کہ پانچ نمازوں ‘ روزے‘ زکوۃ اور حج کی فرضیت اور زنا‘ چوری‘ قتل وغیرہ کی حرمت یا ان مخفی أمور میں سے ہوں جو عوام الناس سے پوشیدہ رہتے ہیں جیسا کہ وارثت کے حصے یا وہ اس شرعی نصاب میں سے ہوں کہ جن میں اجتہا دکی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان تمام مسائل میں اجتہاد نہیں ہے۔ ا سی طرح ان مسائل میں بھی اجتہا دنہیں ہے جو اجماع صریح سے ثابت ہوں اور یہ اجماع تواتر سے منقول ہو۔ یہ دو قسمیں اجتہاد کے دائرہ کار میں داخل نہیں ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر محمد رمضان البوطی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أن الشوری لا مکان لھا فی أمر ثبت حکمہ بنص من القرآن‘ أو السنۃ الصحیحۃ‘ وکان ذا دلالۃ واضحۃ‘ أو ا ستقر فی شأنہ الإجماع۔‘‘[3]
’’ان مسائل میں شوری کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ جن کا حکم قرآن کی کسی نص یا صحیح سنت سے ثابت ہو اور وہ نص واضح دلالت والی ہو یا
|