مسائل‘کہ جن میں پہلے سے کوئی قانون موجود نہ ہو‘ میں مجتہد قاضیوں کو اجتہاد کا اختیار ہو گا۔ا سی طرح تہذیب و تمدن کے نئے مسائل میں تقنین کی جب ضرورت پیش آئے گی تو علماء اور قاضیوں کی مجال س اجتہاد کے ذریعے قانون سازی کریں گی۔علاوہ ازیں متعین قوانین کی تطبیق(application)میں بھی قاضیوں کے لیے اجتہاد کی گنجائش باقی رہے گی۔
د سویں دلیل
ایک اعتراض یہ وارد کیاگیا ہے کہ تقنین کا لفظ غیر عربی ہے اور یہ اصطلاح بہت سے غیر شرعی تصورات کو شامل ہے۔ پس اس اصطلاح کا استعمال شروع میں لفظ اور پھر اس کے غیر شرعی معانی کو اختیار کرنے کی صورت میں نکل سکتاہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أن کلمۃ تقنین یخشی منھا أن تکون طریقاً لإحلال القوانین الوضعیۃ مکان الشریعۃ الاسلامیۃ فیکون التشابہ فی الا سم أولاً ثم المضمون ثانیاً فمنع ھذہ الت سمیۃ واجب من باب الحذر۔‘‘[1]
’’ تقنین کی اصطلاح کے استعمال میں یہ اندیشہ ہے کہ یہ چیزوضعی قوانین کو شریعت اسلامیہ کی جگہ دینے کا ذریعہ نہ بن جائے۔ پس شروع میں یہ صرف ا سم میں مشابہت ہو گی اور بالآخر اس کے تصورات میں بھی مشابہت داخل ہوجائے گی۔ پس اس اصطلاح کے استعمال سے بچنا واجب ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ سعودی علماء تقنین کی بجائے تدوین کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور تدوین سے تقنین کا معنی مراد لیتے ہیں ۔
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نئی اصطلاحات کی ایجادیا استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔اگر واقعتا اس اصطلاح کے استعمال میں کچھ خطرات ہوں تو اس کے لیے نئی اصطلاح بھی وضع کی جا سکتی ہے۔
گیارہویں دلیل
عدم تقنین کے حق میں ایک دلیل یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ تقنین کی صورت میں شریعت کی و سعتوں ‘ آ سانیوں ‘ سہولتوں اور رخصتوں سے ا ستفادہ ناممکن ہو جائے گا۔مولاناأمین أحسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اسلامی قانون میں جو و سعت ہے وہ اس ضابطہ بندی اور تدوین سے بالکل سکڑ کر رہ جائے گی ۔عدالتیں پابند ہو جائیں گی کہ وہ ہرمعاملے کا فیصلہ اس ضابطے کی روشنی میں کریں جو ان کے سامنے بنا کر رکھ دیا گیا ہے‘ خواہ انصاف اور شریعت الہی کا منشا پورا ہو رہا ہو یا نہ ہو رہا ہو۔‘‘[2]
مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ تقنین اپنے الفاظ میں کسی خاص تعبیر و تدوین شریعت کو قانونی جامہ پہنانے کا نام ہے جو حتمی امر ہو کر ایک طرف شریعت سازی اور خدائی اختیارات میں دخل اندازی کا موجب بنتی ہے تو دو سری طرف ا سے اجتہاد بھی نہیں قرار دیا جا سکتاکیونکہ اجتہاد سے تو شریعت کی و سعتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ تقنین سے فرد و معاشرہ کو کی تقلید کا پابند قرار دے کے اجتہاد کے دروازے ان پر بند کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘[3]
بارہویں دلیل
ایک دلیل یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی مذہب کے پیرو کار موجود ہوں بلکہ
|