نہیں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے شریعت قرآن تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے شریعت تھی اور شریعت عارضی دور کے لیے تھی تو یہ اس کا نقص ہوا۔ پس الطاف صاحب بھی شریعت میں تبدیلی کو اجتہاد سمجھتے ہیں ۔
غامدی صاحب کی تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ وہ شریعت کی جامعیت اور تکمیل کے قائل نہیں ہیں ۔کیونکہ شریعت اگر مکمل ہے تویہ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے کہ کسی مسئلے میں اگر قرآن و سنت خاموش ہوں تو اجتہاد کیاجائے گا۔اگر قرآن و سنت کسی مسئلے میں خاموش ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت ہر مسئلے کا حل پیش نہیں کرتے اور شریعت اسلامیہ ایک جامع شریعت نہیں ہے۔گویا شریعت کی تکمیل کا کام تاقیامت بذریعہ اجتہاد و مجتہدین جاری و ساری رہے گا۔یہ دونوں انتہاء پسندانہ نکتہ نظر اسلام کے بنیادی تصورات و ا سا سات ہی کے خلاف ہیں ۔ختم نبوت کے عقیدے کا بھی بنیادی تقاضایہی ہے کہ کسی قسم کی بھی شریعت سازی یا شریعت میں تبدیلی کے دروازے کو بند کیا جائے۔لیکن بعض معاصرمفکرین نے ختم نبوت کے عقیدے کو ماننے کے باوجود نبی کے اختیارات مجتہدین کو تفویض کرنا شروع کر دیے ہیں ۔
ان دونوں انتہاء پسندانہ نکتہ ہائے نظر کے مابین أئمہ سلف کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اجتہاد’حکم شرعی‘ کی تلاش کانام ہے۔یعنی جب بھی کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا ہے کہ جس کا حکم واضح اور صریح انداز میں قرآن و سنت میں موجود نہ ہو تو قرآن و سنت کی و سعتوں اور گہرائیوں میں سے اس واقعے سے متعلق حکم شرعی کو مستنبط کرنا اجتہاد ہے۔ا ستنباط کسی چیز سے ہوتا ہے مثلاً پانی اگر کنویں میں موجود ہے تو اس پانی کے ا ستباط کا مطلب کنویں میں سے پانی نکالنا ہے نہ کہ کنویں کے باہر سے پانی حاصل کر لینا۔ا سی طرح حکم شرعی کو قرآن و سنت سے نکالنا اجتہاد ہے نہ کہ باہر سے کسی اور خارجی ذریعے سے معلوم کرنا۔ پس قیامت تک آنے والے مسائل کا حل کتاب و سنت میں موجود ہے ۔بعض مسائل کے بارے میں قرآن و سنت نے صریح الفاظ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے جبکہ اکثر اوقات قرآن و سنت کا منہج یہ ہے کہ وہ ایسے ضوابط‘ علل اور اسباب بیان کر دیتے ہیں کہ جن کے ساتھ احکام معلق ہوتے ہیں لہذا جو جزئیات بھی کسی کلی ضابطے کے تحت آتی ہوں ‘ ان سب کا حکم ایک جیسا ہو گا ۔ ا سی طرح اگر شرع نے کسی چیز کو کسی علت کی وجہ سے حرام کیاہے تو وہ علت جن اشیاء میں بھی پائی جائے گی وہ حرام متصور ہوں گی۔ پس قرآن و سنت نے بعض اشیاء کی حرمت تو صریح الفاظ میں بیان کر دی اور اکثر اوقات ایسی علل بیان کر دی ہیں جو کسی چیز کو حرام بنا دیتی ہیں لہذاان علل کی وجہ سے جب ہم کسی چیز کو حرام ٹھہرائیں گے تو اگرچہ ہم یہی کہیں گے کہ فلاں چیز نص سے حرام ہوئی ہے اور فلاں قیاس سے ‘ لیکن دونوں چیزوں کا حکم شریعت یا نصوص میں موجود ہے ایک کا صراحتاً اور دو سری کا قیا ساً۔ ا سی طرح کا معاملہ ان مسائل کا بھی ہے جن کو مصلحت‘ سدالذرائع اور عرف وغیرہ جی سے قواعد کی روشنی میں مستنبط کیا جاتا ہے۔قیا س‘ اجماع‘ مصلحت‘ عرف‘ سد الذرائع‘ شرائع من قبلنا‘ا ستصحاب اور استحسان وغیرہ جی سے قواعد عامہ کی حجیت بھی قرآن و سنت کی نصوص ہی سے ثابت ہے۔علماء نے احکام شرعیہ کے استنباط وا ستخراج میں ان قواعد کے مآخذ یا مصادر ہونے کے دلائل أصول کی کتابوں میں جمع کر دیے ہیں ۔
اجتہاد کا شرعی حکم
اجتہادکے جواز کے لیے ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جو بہت معروف ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’عن رجال من أصحاب معاذ أن ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم بعث معاذا إلی الیمن فقال کیف تقضی فقال أقضی بما فی کتاب اللّٰہ قال فإن لم یکن فی کتاب اللّٰہ قال فبسنۃ ر سول اللّٰہ قال فإن لم یکن فی سنۃ ر سول اللّٰہ قال اجتھد رأیی الالحمد اللّٰہ الذی وفق ر سول ر سول اللّٰہ …قال أبو عیسی ھذا حدیث لا نعرفہ إلا من ھذا الوجہ ولیس ا سنادہ عندی بمتصل و أبو عون الثقفی ا سمہ محمد بن عبید اللّٰہ ۔‘‘[1]
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے چند ایک اصحاب سے روایت ہے کہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف(گورنر بنا کر)بھیجا اور کہا کہ تم کیسے فیصلہ کرو گے تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جو کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔اللہ کے
|