مشقت ہے اور’جُہد‘ سے مراد طاقت ہے ۔۔۔اور’جَھَدَ‘ باب فتح سے اور’اجتھد‘ باب افتعال سے اور دونوں کا معنی کوشش کرنا ہے ۔۔۔’اجتہاد ‘ اور ’تجاہد‘ سے مراد پوری طاقت و قوت کو خرچ کرنا ہے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے : میں اپنی رائے(بنانے میں )اجتہاد کروں گا یعنی کسی مسئلے کو معلوم کرنے کے لیے اپنی طاقت صرف کروں گا۔اجتہاد ’جہد‘ سے باب افتعال ہے اور طاقت کے معنی میں ہے۔‘‘
ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ اجتماعی اجتہاد کا لغوی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’والجماعی ن سبۃ إلی الجماعۃ‘ فالاجتھاد الجماعی ھو اجتھاد الجماعۃ۔‘‘[1]
’’ اجتماعی کا لفظ جماعت کی طرف نسبت ہے اور ’اجتماعی اجتہاد‘ سے مراد ایک جماعت کا اجتہا دہے۔‘‘
’اجتماعی اجتہاد‘کی اصطلاحی تعریف
اجتماعی اجتہاد کی تعریف ایک جدید تعریف ہے۔ سلف صالحین کے مختلف ادوار میں ہمیں اجتماعی اجتہاد کی بعض صورتیں تو ملتی ہیں لیکن اس دور میں اس کی کوئی باقاعدہ تعریف وضع نہیں کی گئی۔ڈاکٹر أحمد رئی سونی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’یعد مصطلح الاجتھاد الجماعی من المصطلحات المعاصرۃ إذ لم یرد لہ ذکر عند المتقدمین‘ أما من حیث الممار سۃ العملیۃ فقد شھد تاریخ التشریع الاسلامی جملۃ من الوقائع التی ھی فی حقیقتھا اجتھاد جماعی وإن لم ت سم بھذا الإ سم۔‘‘[2]
’’اجتماعی اجتہاد کی اصطلاح ایک جدید اصطلاح ہے اور متقدمین میں اس کا تذکرہ ہمیں نہیں ملتا۔جہاں تک اجتماعی اجتہاد کی عملی صورتوں کا معاملہ ہے تو فقہ اسلامی کی تاریخ میں اس قسم کے بہت سے واقعات موجود ہیں جو اجتماعی اجتہاد ہی کی مختلف صورتیں ہیں اگرچہ انہیں سلف نے اجتماعی اجتہاد کا نام نہیں دیا۔‘‘
معاصر علماء نے اجتماعی اجتہاد کی کئی ایک اصطلاحی تعریفیں بیان کی ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں :
پہلی تعریف
ڈاکٹر عبد المجیدالسؤ سوۃ الشرفی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ھوا ستفراغ أغلب الفقہاء الجھد لتحصیل ظن بحکم شرعی بطریق الا ستنباط‘ واتفاقھم جمیعاً أو أغلبھم علی الحکم بعد التشاور۔‘‘[3]
’’فقہاء کی اکثریت کا کسی حکم شرعی کی بذریعہ ا ستبناط تلاش میں اپنی صلاحیتوں کو کھپا دینا اور پھر ان سب کا یا ان کی اکثریت کا باہمی مشورے کے بعد کسی شیء کے شرعی حکم پر اتفاق کر لینااجتماعی اجتہاد ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبد المجید صاحب کی یہ تعریف شرح کی متقاضی ہے لہٰذاوہ اپنی بیان کردہ تعریف کی خود ہی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’قولہ:(أغلب الفقہاء)‘ قید لبیان أن الاجتھاد الجماعی یختلف عن الاجتھاد الفردی فی کونہ جھد جماعۃ ولیس جھد فرد‘ وإن ھذہ الجماعۃ تکون أغلب العلماء المجتھدین أو أکثرھم۔‘‘[4]
’’فقہاء کی اکثریت کی قید اس لیے لگائی گئی تاکہ اجتماعی اور انفرادی اجتہاد میں یہ فرق واضح ہو سکے کہ اجتماعی اجتہاد فقہاء کی ایک
|