’’یتحقق فی الاجتھادالجماعی مبدأ الشوری فی الاجتھاد‘ وذلک أن أعضاء المجلس الاجتھادی یمار سون الشوری بتبادل الآراء‘ وتمحیص الأفکار وتقلیبھا علی کل الوجوہ‘ حتی یصلوا إلی رأی یتفقون علیہ أو ترجحہ الأغلبیۃ‘ وفی ھذا تطبیق لمبدأ الشوری الذی أمرنا اللّٰہ بہ فی قولہ تعالی:﴿وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ﴾ وقولہ تعالی:﴿ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْر﴾۔‘‘[1]
’’اجتماعی اجتہاد میں اجتہادی شوری کی بنیاد پوری ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ فقہی مجلس کے مختلف اراکین آراء کے باہمی تبادلہ ‘افکار کی چھان پھٹک اور ان کو ہر اعتبار سے پرکھتے ہوئے باہمی مشاورت کی مشق کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ سب ایک یا ان کی اکثریت ایک رائے پر متفق ہو جائیں ۔ اس عمل میں شوری کے اس بنیادی حکم کی تعمیل ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے’ اور ان کے معاملات باہمی مشاورت سے ہوتے ہیں ‘ اور’ اور ان سے معاملات میں مشورہ کریں ‘ میں دیا ہے۔‘‘
حکم شرعی کی تلاش میں صحیح تر رائے کا حصول
اجتہادی مسائل میں خطا کا امکان برابر باقی رہتا ہے ۔مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے تو بعض اوقات اس کا اجتہاد صحیح ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں غلط‘ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’إذا حکم الحاکم فاجتھد ثم أصاب فلہ أجران وإذا حکم فاجتھد ثم أخطأ فلہ أجر۔‘‘[2]
’’جب حاکم اجتہاد کرتا ہے اور صحیح رائے تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے اور اگر حاکم اجتہاد کرے اور خطا کرے تو اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔‘‘
اجتماعی اجتہاد کی صورت میں اگرچہ خطا کا امکان ختم تو نہیں ہوتا لیکن کم ضرور ہو جاتا ہے۔ یہ امکان ہے کہ انفرادی اجتہاد کی طرح اجتماعی اجتہاد میں بھی غلطی ہو لیکن باہمی مشاورت اور تبادلہ خیال کی صور ت میں فقہاء کی جماعت جس رائے تک پہنچتی ہے اس میں صحت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبد المجید السؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’إن الاجتھاد الجماعی باعتبارہ تفاعل وتکامل ومشارکۃ بین مجموعۃ کبیرۃ من العلماء المجتھدین والخبراء المتخصصین‘ یتمیز عن الاجتھاد الفردی بأنہ یکون أکثر ا ستیعاباً وإلماماً بالموضوع المطروح للاجتھاد‘ وأکثر شمولاً فی الفھم لکل جوانب وملاب سات القضیۃ‘ کما أن عمق النقاش فیہ ودقۃ التمحص للآراء والحجج‘ یجعل استنباط الحکم أکثردقۃ وأکثر إصابۃ۔‘‘[3]
’’اجتماعی اجتہادکبار علمائے مجتہدین اور ماہرین فن کے باہمی تعامل‘ مشارکت اور ایک دو سرے کی تکمیل کے پہلو سے انفرادی اجتہاد سے ایک مختلف شیء ہے کیونکہ اس میں پیش آمدہ مسئلے کے جمیع پہلوؤں سے واقفیت اور اس کے تمام أحوال و جوانب کی سوجھ بوجھ انفرادی اجتہاد کی نسبت بہت زیادہ حاصل ہو جاتی ہے۔ جیساکہ بحث و مباحثہ کی گہرائی اور آراء و دلائل کی اچھی طرح چھان پھٹک‘ استنباط حکم میں بہت زیادہ باریکی اور صحت کے امکان پیدا کر دیتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’فإن أی خطأ فی الاجتھاد للقضایا العامۃ یصیب أثرہ عموم النا س‘ لذلک یجب فی ھذہ القضایا أن یکون الاجتھاد جماعیاً‘ لما فیہ من دقۃ فی البحث‘ وشمول فی النظر‘ وتمحیص للرأی‘ یتبلور ذلک من خلال اشتراک جمع من العلماء فی النقاش وتبادل الآراء‘ فیأتی حکمھم أکثر دقۃ فی الا ستنباط‘
|