اجتماعی اجتہاد کی تعریف میں تیسری قید کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وقولہ:( بعد تشاورھم)فیہ بیان بأن الاجتھاد الجماعی لا بد أن یکون الحکم الصادر عنہ قد أتی بعد تشاور أولئک العلماء وتبادلھم للآراء‘ وتمحیصھم للأفکار‘ ومناقشتھم للأقوال بطریقۃ شوریۃ‘ من خلال و سیلۃ یحددونھا کالمجال س أو المجامع أو المؤتمرات أو غیر ذلک‘ أما إذا حدث توافق بین آراء مجموعۃ من العلماء فی حکم شرعي‘ وکان ذلک دون سابق تشاور بینھم حول ذلک الحکم‘ فإن ھذا لیس اجتھادا جماعیاً‘ وإنما ھو توافق فی الاجتھاد۔‘‘[1]
’’تعریف میں علماء کے باہمی مشورے کے بعد ان کے اتفاق کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ اجتماعی اجتہاد کے لیے یہ بات لازم ہے کہ کسی مسئلے کے شرعی حکم پر علماء کا اتفاق ان کی باہمی مشاورت‘ تبادلہ خیال ‘ ایک دو سرے کے موقفات کی چھان پھٹک اور دلائل کی رد و قدح کے بعد شورائی طریقے پر صادر ہواوریہ سب عمل مختلف قسم کی مجال س‘ اداروں اور سیمیناروں وغیرہ کا نتیجہ ہو۔اگر ایسا ہوکہ کسی مسئلے کے شرعی حکم میں علماء کی آراء بغیر کسی مشاورت کے اتفاقاً ایک دو سرے کی تائید میں ہوں تو یہ اجتماعی اجتہاد نہ ہوگا بلکہ اس کو ہم ان کے اجتہاد کی باہمی موافقت کا نام دیں گے۔‘‘
اجتماعی اجتہاد کی تعریف میں باہمی مشاورت کے عمل کو جس طرح ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا ہے وہ ایک اہم نکتہ ہے ۔ا سی طرح انہوں نے کسی مسئلے میں علماء کی باہمی مشاورت کے جو ذرائع بیان کیے ہیں ‘ ان کا انکار نہیں ہے لیکن ان میں اہم ترین ذریعہ تحریری مباحثہ و مکالمہ ہے جس کا تذکرہ انہوں نے نہیں کیا۔بعض اوقات ایک عالم دین اپنی کسی کتاب‘ مقالے یا تحقیقی مضمون میں کسی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اس پر دو سرے علماء کی طرف سے مثبت و منفی آراء کا اظہار شروع ہو جاتا ہے ۔ اس طرح معاصر تحقیقی ر سائل و جرائد یا کتب میں بحث ونقدکے اس سلسلے میں علماء اپنی آراء قائم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایک خاص وقت کے بعد علماء کی ایک اکثریت اس رائے کی حامل ہوتی ہے کہ جس کو ایک عالم نے شروع میں پیش کیا تھا۔مثال کے طور پر کیمرے کی تصویر کو ہی لے لیں ۔ اس بارے میں بعض علماء مثلاً ڈاکٹر یو سف القرضاوی حفظہ اللہ نے جواز کا فتوی جاری کیا‘ جس پر مختلف علماء کی طرف سے نقد کی گئی اور اس طرح ایک تحریری مناقشہ کے بعد آج علماء کی اکثریت کیمرے کی تصویر کے جوازیا عدم جواز میں سے کسی ایک موقف کی حامل ضرور ہے۔ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسؤۃ حفظہ اللہ اس قید کی مزید شرح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :
’’وأیضاً فی قولہ: بعد تشاورھم‘ وصف یتبین منہ الفرق بین الاجتھاد الجماعی والإجماع‘ فالجماعی یلزم أن یکون مبنیاً علی الشوری‘ أما الإجماع فلا یشترط فیہ تشاور المجتھدین‘ إذ لو حدث اتفاق جمیع المجتھدین علی حکم شرعی دون أن یسبق ذلک تشاور‘ صح الإجماع۔ ‘‘[2]
’’علماء کے مشورے کے بعد کسی رائے پر اتفاق کی قید اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ اجماع اور اجتماعی اجتہاد میں فرق واضح ہو جائے کیونکہ اجتماعی اجتہاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ شوری پر مبنی ہوجبکہ اجماع کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں مجتہدین کی باہمی مشاورت شرط نہیں ہے،اگر کسی مسئلے میں بغیر کسی مشورہ کے مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر اتفاق ہو گیا ہوتو یہ اجماع کہلائے گا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے اجتماعی اجتہاد اور اجماع میں فرق کے اعتبار سے ایک اچھا نکتہ بیان کیا ہے ۔اجتماعی اجتہاد اگرچہ اجماع تو نہیں ہے لیکن وہ اجماع کے حصول کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے۔
دو سری تعریف
ڈاکٹر خلیل العیداجتماعی اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
|