Maktaba Wahhabi

161 - 214
ہیں : ’’جدید قائم کردہ دنیاوی عدالتوں (نظامیہ)کو اکثر اوقات عام دیوانی قانون کے معاملات کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے‘ لیکن ججوں کو عام طور پر علم فقہ سے پوری واقفیت حاصل نہیں ہوتی‘ اس لیے یہ قرین مصلحت سمجھا گیا کہ مذہبی عدالتوں کے صدر ہی کو بیک وقت ان دنیاوی عدالتوں کا صدر بھی مقرر کیا جائے۔یہ انتظام ت سلی بخش ثابت نہ ہوا‘ اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ قانونی معاملات کے متعلق ضروری امور کو ایک ضابطہ کی صورت میں تشکیل دے دیا جائے جس کا آ سانی کے ساتھ مطالعہ کیا جا سکے اور اس کے مقابلے میں فقہ کی ضخیم کتابوں کے دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔‘‘[1] اس ضابطہ دیوانی کی تکمیل و تدوین ۱۲۸۵ھ تا ۱۲۹۳ھ کے مابین ہوئی ہے اور اس کو سات علماء پر مشتمل ایک کمیٹی نے مکمل کیا ہے جس کے صدر أحمد جودت پاشا تھے۔ اس ضابطہ کو شعبان ۱۲۹۳ھ میں سلطانی فرمان کے ذریعے دولت عثمانیہ کی تمام عدالتوں میں نافذ کر دیا گیا ہے۔محمد طفیل ہاشمی لکھتے ہیں : ’’ سرکاری سطح پر جو ن سبتاً وقیع کوشش ہمیں نظر آتی ہے‘ وہ حکومت عثمانیہ کے مجموعہ قوانین مدنی ’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘کی ہے۔حکومت عثمانیہ نے أحمد جودت پاشا ناظم محکمہ أحکام عدلیہ کی زیر صدارت ایک سات رکنی مجلس قائم کی۔۔۔مجلس نے تقریباً نو سال کی محنت کے بعد۱۲۹۳ھ میں مجلۃ کی تالیف مکمل کی جو سلطان ترکی کے حکم سے جاری کردیا گیا۔‘‘[2] لیکن اس کے باوجود یہ مجلۃ تمام معاملات میں واحد سند نہیں تھا بلکہ قاضیوں کو یہ اجازت تھی کہ وہ فقہ حنفی کی دیگر کتب کامطالعہ کر کے کسی قضیے کا فیصلہ کریں اور انہوں نے اس اجازت کو استعمال بھی کیاہے۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگارلکھتے ہیں : ’’لیکن یہ نہیں کہا جا سکتاکہ یہ مجلہ بھی تمام معاملات متعلقہ کے لیے واحد سند تھا۔قاضیوں کو اس معاملہ میں پوری آزادی حاصل تھی کہ حنفی فقہ کی کتابوں کے مطالعہ کے بعداپنے نتائج کا استنباط کریں اور یہ آزادی فی الحقیقت استعمال بھی کی جاتی رہی۔‘‘[3] دور جدید میں فقہی قانون سازی کی تاریخ دور جدید میں مختلف اسلامی ممالک نے انگریزوں ‘ فران سی سیوں ‘ اتحادیوں اور جاپانیوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی ریا ستوں میں اسلامی قانون سازی کی طرف قابل قدر نہ سہی لیکن کسی قدر پیش رفت کی ہے۔مصر‘ ایران‘ عراق‘ اردن‘ شام‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ سوڈان‘ مراکش‘ تیون س‘ لیبیا‘ افغان ستان‘ سعودی عرب اور پاکستان میں اس معاملے میں خاصی پیش رفت ہوئی۔ذیل میں ہم عالم اسلام کے تین نمائندہ ممالک مصر‘ سعودی عرب اور پاکستان میں اسلامی قانون سازی کے حوالے سے ہونے والی سیا سی و آئینی جدوجہد کا ایک مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں ۔ مصر میں قانون سازی کی تاریخ دو سری صدی ہجری میں امام شافعی رحمہ اللہ نے مصر کو اپنے جدید مذہب کی نشر و اشاعت کے لیے منتخب کیا اور قاہرہ ہی میں ۲۰۴ھ میں وفات پائی۔ فاطمی ا سماعیلی خلفاء کے دور میں مصر کی عدالتوں میں شافعی مذہب کے مطابق فیصلے ہوتے تھے۔ سلطان صلاح الدین أیوبی رحمہ اللہ(۱۱۳۸ تا ۱۱۹۳ء)نے مصر پر حملے کر کے ا سماعیلیوں کی حکومت ختم کر دی اور ایوبیہ خاندان کی حکومت قائم کی۔حکومت أیوبیہ کے دور اقتدار میں بھی شروع شروع میں فقہ شافعی ہی کا غلبہ رہا‘ جبکہ بیبر س نے اپنے زمانہ اقتدار(۱۳۰۸تا ۱۳۰۹ء)میں چارقاضی حنفی‘ مالکی‘ شافعی اور حنبلی مقرر کیے لیکن ان میں بھی قاضی شافعی کو ترجیح ہوتی تھی۔دولت عثمانیہ کے نویں سلطان سلیم اول نے اپنے زمانہ خلافت(۱۵۱۴تا ۱۵۲۰ء)میں مملوک سلاطین کی
Flag Counter