Maktaba Wahhabi

109 - 214
’’ سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپلیٹ بنچ نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ تجارتی و صرفی ہر طرح کے لین دین پر معاشرے میں جاری سود کی تمام اشکال قرآن و سنت سے متصادم ہونے کے باوصف حرام اور ممنوع ہیں ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی قراردیا کہ حکومتی سطح پر حاصل کردہ ملکی اور بین الأقوامی سودی قرضے بھی ا سی ذیل میں آتے ہیں ‘ لہذا ان کا چلن بھی اسلامی تعلیمات کی رو سے ناجائز ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ آٹھ سودی قوانین کو مارچ ۲۰۰۰ء تک تبدیل کر کے قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھال لے جبکہ بقایا تمام سودی قوانین کو ختم یا تبدیل کرنے کے لیے ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک کی مہلت دے دی گئی ہے۔‘‘[1] لیکن قابل اف سو س بات یہ ہے کہ اس وقت کی آمرانہ و روشن خیال حکومت نے اس سلسلے میں حیلے بہانوں اور ٹال مٹول سے کام لیا اور تاحال اس بارے میں بعد ازاں عملاً کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اقتصادی و طبی أمور میں اجتماعی اجتہاد ڈاکٹر یو سف القرضاوی حفظہ اللہ نے عصر حاضر میں اجتہاد کے دو اہم میدانوں کا تذکرہ کیا۔ ایک تو اقتصادی مسائل میں اجتہاد اور دو سرا طبی أمور میں ۔ یہ بھی ایک أمر واقعہ ہے کہ ان دونوں علوم نے انسانی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں پید اکی ہیں اور کئی ایک جدید اقتصادی و طبی مسائل میں شدت سے شرعی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی۔شیخ قرضاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’المجال الأول : المجال الاقتصادی والمالی فلا شک أن عصرنا ھذا قد حفل بأشکال وأعمال ومؤ س سات جدیدۃ فی میدان الاقتصاد والمال لم یکن لأسلافنا بل لأقرب العصور إلینا عھد بھا وذلک کالشرکات الحدیثۃ بصورھا المتعددۃ ۔‘‘[2] ’’ پہلا میدان اقتصادی اور مالی أمور کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاصر زمانے میں اقتصادی و مالی أمور میں کئی ایک ایسی نئی صورتیں ‘ کاروبار اور کمپنیاں وجود میں آ گئی ہیں جو پچھلے زمانوں میں نہ تھیں بلکہ ہمارے ماضی قریب کے زمانے میں بھی ان کا نام و نشان بھی نہ تھا جیسا کہ متعدد قسم کی نئی کمپنیاں ہیں ۔‘‘ شیخ آگے چل کر اقتصادی مسائل میں ہونے والے اجتماعی سیمینارز اور ورکشا پس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وکم عقدت فی عصرنا حلقات وندوات‘ وأقیمت مؤتمرات‘ ونظمت أ سابیع‘ لدرا سۃ بعض الموضوعات المالیۃ والاقتصادیۃ‘ مثل: التأمین أو البنوک أو الزکاۃ فی الأموال المعاصرۃ؟ واتفقت فی بعض الأمور‘ واختلفت فی بعضھا الآخر‘ وحسمت القول فی بعض القضایا‘ وظلت قضایا کثیرۃ مرجأۃ للبحث‘ تنتظر رأی المجتھد فردا کان أو جماعۃ۔‘‘[3] ’’ ہمارے زمانے میں بعض اقتصادی و مالی مثلاً أنشورن س‘ بینک اور معاصر أموال میں زکوۃ جی سے مسائل پرتحقیق کے لیے کتنے ہی علمی اجتماعات‘ مجال س‘ کانفرن سوں اور ہفتہ وار ورکشا پس کا انعقاد ہوا ہے۔ بعض مسائل میں علماء کا اتفاق ہو جاتا ہے اور بعض میں ان کا اختلاف باقی رہتا ہے۔ بعض أمور میں کوئی رائے جاری نہیں کی جاتی جبکہ مسائل کی ایک کثیر تعداد اس اعتبار سے بحث و تحقیق کی متقاضی رہتی ہے کہ ان میں کوئی مجتہد اپنی انفرادی حیثیت میں یا علماء کی ایک جماعت اجتہا دکرے۔‘‘ تہذیب و تمدن کی ترقی نے طب کی دنیا میں ایک بہت بڑی تبدیلی پید اکر دی ہے۔ کلوننگ‘ بے بی ٹسٹ ٹیوب ‘ اعضائے انسانی کی منتقلی‘پیوند کاری اور خرید و فروخت‘ انسانی خون کا انتقال و خرید و فروخت‘ ا سقاط حمل(Abortion)‘ مر سی کلنگ(Mercy Killing)وغیرہ جی سے سینکڑوں مسائل ایسے ہیں کہ جن میں اجتماعی اجتہاد کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یو سف القرضاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
Flag Counter