نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی انسانی عمل نقص سے خالی نہیں ہوتا۔ پس ایک دفعہ اگر کسی مسئلے میں کوئی قانون بنا بھی لیا جائے تب بھی بدلتے حالات اور تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی وجہ سے اس پر مسلسل نظر ثانی کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أن الأحکام الشرعیۃ المقننۃ إذا ما عدلت وھذا من طبیعۃ کل عمل بشری فإنہ یؤدی إلی زعزعۃ الثقۃ بأحکام الشریعۃ الاسلامیۃ وکثرۃ التعدیلات التی تجری علی القوانین تبعدھا عن أصلھا الشرعی کما ھو مشاھد فی قوانین الأحوال الشخصیۃ۔‘‘[1]
’’جب ان شرعی حکام کو جنہیں قانونی شکل دی گئی ہے‘ تبدیل کیا جاتا ہے اور یہ تبدیلی بشری عمل کا ایک لازمی تقاضاہے تو یہ تبدیلی کا عمل احکام شرعیہ پر اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے اوران قوانین میں ہونے والی پے در پے ترمیمات اس قانون کو اصل شرعی سے بہت دور لے جاتی ہیں جیسا کہ بعض ممالک کے عائلی قوانین میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے۔ ‘‘
اس کا جواب یہ دیا گیاہے کہ ایک قاضی جب اپنے اجتہاد کی روشنی میں کوئی فیصلہ کرے گا تو مختلف حالات میں عین ممکن ہے اس کادو سرا اجتہاد اس کے پہلے اجتہاد کے برعکس ہو۔ پس قاضی پر اس صورت میں اپنے پہلے اجتہاد کی پابندی لازم نہ ہو گی اور اس کا ہر ایک اجتہاد اپنے وقت میں صحیح متصور ہو گا۔ا سی طرح کا معاملہ قانون میں تبدیلی کابھی ہے۔جب لوگوں کی مصلحت اور احوال زمانہ کے ساتھ تطبیق کی وجہ سے کوئی قانونی تبدیلی کی گئی ہو تو یہ ایک خوش آئند أمر ہو گا نہ کہ کوئی عیب یانقص۔
اس کایہ جواب ممکن ہے کہ تقنین کی صورت میں ایک دفعہ ترمیم کے باوجوداحوال و ظروف کے تبدیلی سے بار بار ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے اور قانونی ترمیم خود ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے اور بعض اوقات اس میں سالہا سال لگ جاتے ہیں ۔ پس جب قانون کسی ترمیم کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تو اس دورانیے میں قاضی یا جج ایک ناقص قانون کے مطابق فیصلوں کا پابند ہوتا ہے۔ا سی طرح بدلتے حالات میں قانون میں مسلسل ترمیمات کی نسبت قاضی کے اجتہاد میں تبدیلی ایک بہت سی آ سان أمر ہے۔ اور عدم تقنین کی صورت میں ایسے مشکل حالات پیش نہیں آتے۔
تیسری دلیل
ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ کسی ایک قول کی تقنین کی صورت میں امت مسلمہ کے عظیم فقہی ورثے اور علمائے سلف کی محنتوں کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ شیخ بکر أبو زید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ إن فی ھذا الإلزام ھجرا للمکتبۃ الاسلامیۃ وتضییعاً لجھود علمائھا ورجالھا و سدا لطرق الدلائل والا ستنباط۔‘‘[2]
’’ کسی ایک فقہی قول کو لازم قرار دینے کی صورت میں عظیم اسلامی ورثے کا ترک‘ علمائے امت اور رجال دین کی محنتوں کا ضیاع اور طرق استنباط و دلائل کا دروازہ بند کر نالازم آئے گا۔‘‘
پس کسی ایک فقہی قول کی تقنین کی صورت میں قاضی‘ جج اور عام مسلمان دیگر فقہی ورثے سے ا ستفادہ کرنے سے محروم ہو جائیں گے۔اور مسلمانوں کے لیے علمی و اختلافی مسائل میں و سعت و کشادگی کی بجائے تنگی متعین ہو جائے گی۔شیخ عبد الرحمن بن سعد الشثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ التقنین فی تضییق علی المسلمین بحملھم علی قول واحد بصفۃ م ستدیمۃ۔‘‘[3]
’’ تقنین کی صورت میں مسلمانوں پرایک ہی قول کو مستقل طور پر لاگو کرنے میں تنگی ہے۔‘‘
|