Maktaba Wahhabi

134 - 214
موضوع کے ایک پہلو پر غور کرتا ہے جبکہ دو سرا پہلو اس سے اوجھل رہتا ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کو کوئی نص یاد ہوتی ہے جبکہ دو سرے کے ذہن میں وہ موجود نہیں ہوتی۔ ا سی طرح بعض اوقات مناقشے سے کچھ چھپے ہوئے نقاط بھی سامنے آ جاتے ہیں یا پوشیدہ أمور روشن ہو جاتے ہیں یا بھولی ہوئی باتیں یاد آ جاتی ہیں ۔ یہ تمام شوری اور اجتماعی عمل کی برکات ہیں جو ہمیشہ افراد کے عمل کے بالمقابل ایک جماعت یا ادارے کے عمل میں حاصل ہوتی ہیں ۔‘‘ إجماع کا حصول قرآن و سنت کے بعد اجماع ِمجتہدین ایک اہم شرعی دلیل ہے ۔ عصر حاضر میں اجماع کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ اجتماعی اجتہاد ہے۔ اجماع کی دو بڑی قسمیں ہیں ۔ ایک اجماع تام کہ جس میں اجماع کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں اور دو سرا اجماع ناقص کہ جس میں اجماع کی بعض شرائط مفقود ہوں ۔ اجتماعی اجتہاد ایک اعتبار سے اجماع ناقص ہوتا ہے لیکن اجماع تام کے درجے کو پہنچ سکتا ہے۔ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ویری بعض المفکرین أن الاجتھاد الجماعی یمکن أن یکون ھو ال جسر الذی یوصل إلی الإجماع التام‘ وذلک أن الحکم الذی یتوصل إلیہ بالاجتھاد الجماعی یمکن عرضہ علی بقیۃ العلماء المجتھدین‘ فإن وافقوا علیہ صراحۃ کان ذلک إجماعاً صریحاً‘ وإن سکتوا بعد علمھم کان إجماعاً سکوتیاً۔‘‘[1] ’’بعض مفکرین کا کہنا یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد ‘ اجماع تام تک پہنچنے کے لیے ایک پُل کا کام دے سکتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ جس مسئلے میں علماء کی کوئی اجتماعی رائے سامنے آئے ‘ ا سے بقیہ علمائے مجتہدین کے سامنے پیش کیاجائے۔ پس اگر وہ صراحتاً اس کی تائید کر دیں تو یہ اجماع صریح ہو جائے گا اور اگر وہ اس کو جاننے کے بعد اس میں خاموشی اختیار کریں تو یہ اجماع سکوتی ہو گا۔‘‘ أ ستاذ علی ح سب اللہ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وذھب بعض العلماء إلی اعتبار الاجتھاد الجماعی إجماعاً ناقصاً‘ حیث قسموا الإجماع إلی نوعین: إجماع کامل‘ وھو الذی یتم فیہ اتفاق کل المجتھدین ‘ والاجماع الناقص‘ وھو الذی یتم فی إتفاق أکثر المجتھدین‘ والذی قد ی سمی اجتھاداً جماعیاً‘ ویقول أصحاب ھذا الرأی أن الإجماع الکامل لم یتحقق فی واقع الأمر إلا فی القضایا أو فی الأمور التی ھی معلومۃ من الدین بالضرورۃ‘ والتی لا تلقی فیھا أحدا من المسلمین إلا وافق علیھا‘ و نقلھا عمن قبلہ‘ وذلک کالإجماع علی أن الجد یرث مع وجود الإخوۃ‘ وأن الجدۃ یحرم التزوج بھا کالأم‘ وترث السد س إذا لم تکن ھناک أم‘ والإجماع علی عدم بیع أم الولد۔‘‘[2] ’’بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ اجتماعی اجتہاد کو اجماع ناقص شمار کر لیا جائے جیسا کہ علماء نے اجماع کی دو قسمیں بیان کی ہیں : اجماع کامل اور اس سے مراد تمام مجتہدین کا اتفاق ہے اور اجماع ناقص کہ جس میں اکثر مجتہدین کا اتفاق ہوتا ہے۔ اس کو بعض اوقات اجتماعی اجتہاد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ اس رائے کے حاملین کا کہنا یہ ہے کہ اجماع کامل‘ أمر واقعہ میں صرف انہی مسائل میں ثابت شدہ ہے ‘ جو ضروریات دین سے متعلق ہیں اور ان مسائل میں آپ جس بھی عالم دین سے ملیں گے وہ آپ کی موافقت ہی اختیار کرے گااور اپنے ماقبل والوں سے اس کو نقل کرے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اس بات پر اجماع کہ دادا ‘ بھائیوں کی موجودگی میں بھی وارث ہوتا ہے اور یہ کہ دادی کے ساتھ نکاح ماں کی طرح حرام ہے اور اگر ماں نہ ہو تو دادی ۶؍۱ کی وارث ہوتی ہے اور یہ کہ أم الولد(وہ لونڈی جس سے مالک کی اولاد
Flag Counter