Maktaba Wahhabi

135 - 214
ہو)کی بیع حرام ہے۔‘‘ بعض علماء نے اجتماعی اجتہاد کواجماع واقعی کا نام دیا ہے۔ ان علماء کا کہنایہ ہے کہ أصول فقہ کی اصطلاح میں اجماع تام أمر واقعہ میں کبھی بھی واقع نہیں ہوا بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی جن مسائل پر اجماع کادعوی کیا جاتا ہے وہ درحقیقت جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتماعی اجتہاد سے ثابت شدہ مسائل ہیں ۔ ڈاکٹر عبدا لمجید السؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فإذا کان اتفاق کل المجتھدین الذی ھو أ س اس الإجماع متعذر فإن اتفاق أکثر المجتھدین لن یکون متعذراً‘ وھذا ما جعل بعض العلماء یذھب إلی أن الإجماع بالمعنی الأصولی لم یتحقق‘ وإنما تحقق ھو الاجتھاد الجماعی‘ وإن ما سمی إجماعاً إنما ھو اجتھاد جماعی‘ و سمی ھؤلاء العلماء الاجتھاد الجماعی بالإجماع الواقعی‘ یعنی الذی تحقق واقعاً فی العصور الاسلامیۃ‘ أما الإجماع بالمعنی الأصولی فلم یتم ذلک واقعاً‘ ودلل ھذا الرأی بأن ما روی عن الصحابۃ من إجماعات‘ لم تکن فی حقیقتھا إلا اجتھادات جماعیۃ‘ حیث کان الخلفاء إذا نزلت بھم قضیۃ لیس فیھا نص من کتاب أو سنۃ‘ یجمعون لھا رؤو س الناس وخیارھم وعلماؤھم‘ویتشارون فی الأمر‘ فما انتھوا إلیہ اعتبر حکماً شرعیاً‘ وھذا فی حقیقتہ اجتھاد جماعی‘ إذ أن ھؤلاء الذی کانوا یجمعون لذلک لم یکونوا کل الصحابۃ‘ ولم یروأن أحد الخلفاء توقف فی حکم شرعی‘ حتی یوافق علیہ بقیۃ علماء الصحابۃ الغائبین عن ذلک المجلس‘ أو الذین کانوا منھم فی الأمصار المتفرقۃ۔‘‘[1] ’’ پس جب اجماع کی بنیادیعنی جمیع مجتہدین کا اتفاق تو ناممکن ہے لیکن اکثر مجتہدین کا اتفاق ایک ناممکن أمر نہیں ہے۔ ا سی تصور کے بارے میں بعض علماء کا کہنایہ ہے کہ أصولی اجماع کبھی واقع ہی نہیں ہوا بلکہ درحقیقت اجتماعی اجتہادات کا وقوع ہوا ہے۔ اور جس کو اجماع کا نام دیا گیا ہے وہ أصل میں اجتماعی اجتہا دہے۔ان علماء نے اجتماعی اجتہاد کو اجماعِ واقعی کا نام دیا ہے یعنی یہ مختلف اسلامی أدوار میں بالفعل واقع ہوا ہے۔ جبکہ أصولی اجماع عملی طور پر کبھی بھی واقع نہیں ہوا۔ اس رائے کی دلیل یہ بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جن اجماعات کا دعوی کیا گیا ہے‘ وہ درحقیقت اجتماعی اجتہادات تھے کیونکہ جب بھی خلفاء کو کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہوتا کہ جس میں کتاب و سنت کی کوئی صریح نص موجود نہ ہوتی تو وہ مسلمانوں کے سرداروں ‘ بہترین لوگوں اورعلماء کوجمع کرتے اور ان سے مشورہ کرتے تھے۔ جس رائے پر ان کا یہ مشورہ ختم ہوتا اس کو حکم شرعی تصور کیا جاتا۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اجتماعی اجتہاد تھا۔کیونکہ اس مشاورت کے لیے جو لوگ جمع ہوتے تھے وہ جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم نہ تھے۔خلفاء میں سے کسی ایک کے بارے میں یہ مروی نہیں ہے کہ اس نے اس مشاورت میں شریک صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ اور دو سرے شہروں میں موجود بقیہ علماء صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے کی موافقت ہونے تک حکم شرعی میں توقف کیا ہو۔‘‘ ڈاکٹر یو سف القرضاوی حفظہ اللہ نے اجتماعی اجتہاد کے ذریعے اجماع تام کے حصول کی ایک تجویز پیش کی ہے۔ ذیل میں ہم وہ تجویز شیخ صاحب کے الفاظ میں بیان کر رہے ہیں ۔ شیخ صاحب لکھتے ہیں : ’’وھذا الاجتھاد الجماعی المنشود یتمثل فی صورۃ مجمع علمی اسلامی عالمی‘ یضم الکفاآت العلیا من فقھاء المسلمین فی العالم‘ دون نظر إلی إقلیمیۃ أو مذھبیۃ‘ أو جن سیۃ‘ فإنما یرشح الشخص لعضویۃ ھذا المجمع فقھہ و ورعہ‘ لا ولائہ لھذہ الحکومۃ‘ أو ذاک النظام‘ أو قربہ من الحاکم أو الزعیم۔ یجب أن یتوافر لھذا المجمع کل أ سباب الحریۃ‘ حتی یبدی رأیہ بصراحۃ‘ ویصدر قرارہ بشجاعۃ‘ بلا ضغط وإرھاب من الحکومات‘ أو من قوی الضغط فی المجتمع۔۔۔وإذا اتفق علماء ھذا المجمع علی رأی فی مسألۃ من المسائل الاجتھادیۃ اعتبر ھذا ’إجماعاً‘ من مجتھدی العصر‘ لہ
Flag Counter