أمیر المؤمنین کے انتظام کی شرط لگانادر ست نہیں ہے ۔جہاں تک اجتماعی اجتہاد کی تنفیذ کا معاملہ ہے تو اس میں یہ شرط لگائی جا سکتی ہے لیکن اجتماعی اجتہاد کی تنفیذ اس کی ماہیت و حقیقت سے خارج کی بحث ہے۔ا سی طرح اجتماعی اجتہاد کی نسبت یہ کہنا کہ وہ کسی اسلامی مملکت میں ہی ہوتو اجتماعی اجتہاد ہے‘ در ست نہیں ہے۔اگر کسی غیر اسلامی یا مسلم اقلیت والی ریا ست میں بھی علماء اجتماعی اجتہاد کرتے ہیں تو وہ صحیح ہو گا اور اس پر اجتماعی اجتہاد کے لفظ کا اطلاق در ست ہو گا۔‘‘
قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نص وارد نہ ہونے کی شرط لگانا بھی در ست نہیں ہے کیونکہ اجتہاد کی تین قسمیں ہیں ۔تخریج المناط‘ تنقیح المناط اور تحقیق المناط۔یہ شرط لگانے سے اجتہاد صرف تیسری قسم کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے۔اجتہاد کی پہلی دو قسمیں حکم شرعی سے علت نکالنے کے باب میں ہیں جبکہ آخری قسم اس علت کو کسی دو سری شیء میں ثابت کرنے کے بارے میں ہے۔ پس علت کا نکالنا اور اس کا اثبات یہ دونوں ہی اجتہاد کی قسمیں ہیں اور علت تو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نصوص سے بھی نکالی جاتی ہے۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ عبارۃ:(لم یرد بہ نص قطعی الثبوت أو الدلالۃ)ھذا الوصف محل نظر إذ أنہ ی ستلزم اخراج الاجتھاد فی تحقیق المناط وھو ضرب من أضرب الاجتھاد المعتبرۃ۔‘‘[1]
’’قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نص وارد نہ ہونے کی شرط لگا دینا محل نظر ہے۔کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ پھر یہ اجتماعی اجتہاد صرف تحقیق مناط ہی کے میدان میں ہوگا اور یہ اجتہاد کی قسموں میں سے ایک قسم ہے(نہ کہ کل اجتہاد)۔‘‘
ساتویں تعریف
ڈاکٹر محمد مصطفی قطب سانو حفظہ اللہ نے اجتماعی اجتہاد کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے:
’’بذل الو سع العلمی المنھجی المنضبط‘ الذی یقوم بہ مجموع الأفراد الحائزین علی رتبۃ الاجتھاد‘ فی عصر من العصور‘ من أجل الوصول إلی مراد اللّٰہ فی قضیۃ ذات طابع عام تم س حیاۃ أھل قطر أو إقلیم أو عموم الأمۃ‘ أو من أجل التوصیل إلی حسن تنزیل لمراد اللّٰہ فی تلک القضیۃ ذات الطابع العام علی واقع المجتمعات والأقالیم والأمۃ۔‘‘[2]
’’ کسی بھی زمانے میں کسی ایسے مسئلے میں ‘ جو عمومی نوعیت کا ہو اور کسی علاقے‘ ریا ست یا ساری امت سے متعلق ہو‘ اللہ کی مراد و منشا تک پہنچنے کے لیے‘ افراد کی ایک ایسی جماعت‘ جو درجہ اجتہاد پر فائز ہو چکی ہو‘ کا خاص منہج کے مطابق علمی اور منضبط کوششیں صرف کرنا‘ اجتماعی اجتہادہے۔‘‘
اس تعریف پر یہ اشکال وارد کیا گیا ہے کہ اس میں اللہ کی مراد تک پہنچنے کے الفاظ در ست نہیں ہیں کیونکہ اجتہاد میں بعض اوقات مجتہد اللہ کی مراد تک پہنچ جاتا ہے اور بعض اوقات نہیں پہنچ پاتا۔علاوہ ازیں مجتہد کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہوتا کہ وہ قطعی طور پر یہ معلوم کر سکے کہ اس مسئلے میں اللہ کی مراد کیا ہے۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’عبارۃ:(الوصول إلی مراد اللّٰہ )ھذا الوصف محل نظر إذ مایتوصل إلیہ المجتھدون ھو رأیھم‘ وإن کان معتبراً إلا أننا لا نجزم بأنہ ھو مراد اللّٰہ ۔‘‘[3]
’’اللہ کی مراد تک پہنچنے کے الفاظ کی قید محل نظر ہے کیونکہ جس تک مجتہدین پہنچتے ہیں وہ ان کی رائے ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ رائے معتبر ہوتی ہے لیکن اس کے بارے میں ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہتے کہ یہی اللہ کی مراد ہے۔‘‘
اس تعریف پر ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا گیا ہے کہ اس میں اختصار و ایجاز نہیں ہے۔عبارت کو خواہ مخواہ طول دیا گیا ہے۔ڈاکٹر صالح بن
|