Maktaba Wahhabi

89 - 214
تعریف سے بھی قریب تر ہے ‘ جس کا میں تذکرہ کر چکا ہوں ‘ یہ ہو گی:(فقہاء کی)ایک جماعت کاعلم أصول فقہ کے منہج کے مطابق اپنی کوششوں کو تحقیق و باہمی مشاورت میں صرف کرناتاکہ کوئی شرعی حکم مستنبط کیا جا سکے یا اس کی تطبیق ہو‘ چاہے وہ شرعی حکم عقلی ہو یا نقلی‘ قطعی ہو یا ظنی۔‘‘ یہ ایک جامع تعریف ہے لیکن اس میں فقہاء یامجتہدین کا لفظ شامل نہیں کیا گیا ہے۔ہمارے خیال میں اگر وہ شامل کر لیا جاتاتو بہتر تھا۔ د سویں تعریف ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ اجتماعی اجتہاد کی مختلف تعریفوں پر نقد کرنے کے بعد ایک ممکنہ تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ بعد ا ستعراض ما أوردہ بعض العلماء المعاصرین الأفاضل من تعریفات للاجتھاد الجماعی أخلص إلی التعریف الذی یبدو أقرب إلی بیان حقیقۃ الاجتھاد الجماعی وعلیہ فیمکن القول: إن الاجتھاد الجماعی ھو: بذل جمع من الفقھاء و سعھم مجتمعین لتحصیل حکم شرعی۔‘‘[1] ’’معاصر فاضل علماء نے اجتماعی اجتہا دکی جو تعریفیں بیان کی ہیں ‘ ان کو نقل کرنے کے بعدمیں اجتماعی اجتہاد کی ایک ایسی تعریف بیان کروں گا جو میرے خیال میں اجتماعی اجتہاد کے تصور و حقیقت کو بخوبی واضح کر رہی ہے۔ پس اس تعریف کے مطابق اجتماعی اجتہاد سے مراد فقہاء کی ایک جماعت کا کسی حکم شرعی کی تحصیل کے لیے اجتماعی طور پر اپنی کوششیں صرف کرنا۔‘‘ اجتماعی اجتہاد کی یہ سب سے جامع تعریف معلوم ہوتی ہے کہ جس میں اختصار بھی ہے۔لیکن اس تعریف میں اگر تحصیل حکم کے ساتھ تطبیق حکم کا لفظ بھی شامل کر دیا جاتا تو یہ جامع مانع بن جاتی یعنی عبارت یوں ہوتی: بذل جمع من الفقھاء و سعھم مجتمعین لتحصیل أو تطبیق حکم شرعی۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ اس تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ’’۱۔إن الاجتھاد الجماعی یحصل بأی عدد یصدق علیہ أنہ جمع أو جماعۃ۔۔۔وکلما کثر العدد کانت الفائدۃ أعظم وحصول الاطمئنان أکبر۔۲۔أن یکون ھؤلاء المجتھدون مجتمعین حین الاجتھاد وھو ما یعبر عنہ البعض ب(التشاور)وان سجاماً مع طبیعۃ ھذا العصر وآلیاتہ فیقصد بالاجتماع ما کان حقیقۃ فی مکان واحد وما کان حکماً کالاتصال عبر الھاتف أو الدوائرالتلفزیونیۃ أو شبکۃ المعلومات أو غیرھا من و سائل الاتصال والتواصل مما یتحقق معہ الاجتماع۔۳۔یھدف الاجتماع إلی تحصیل حکم شرعی سواء کان ذلک متعلقاً بقضیۃ عامۃ أو خاصۃ ولا یشترط أن یتم ذلک من خلال ھیئۃ أو مجمع‘ کما لا یشترط فیہ أن یکون ذا صفۃ ر سمیۃ وإن کان توافر ھذہ الأوصاف حسناً غیر أنہ لیس شرطاً فی حقیقہ الاجتھاد الجماعی۔۴۔إن واقع الاجتھاد الجماعی المعاصر من خلال المجامع المفقھیۃ وھیئات الإفتاء وما شابہ ذلک یشھد بأن ھذا الاجتھاد لا یقتصر علی الأحکام والمسائل الفقھیۃ وإنما یتجاوز ذلک إلی بعض القضایا والوقائع غیر الفقھیۃ کمسائل العقائد وأصول الدین من مثل الحکم علی بعض الفرق کالقادیانیۃ والبھائیۃ۔‘‘[2] ’’۱۔اجتماعی اجتہاد علماء کی ہر اس تعداد سے حاصل ہو جاتا ہے ‘ جس پر جماعت یا مجمع کا اطلاق ہوتا ہو۔۔۔لیکن جس قدر تعداد زیادہ ہو گی‘ اجتماعی اجتہاد کا فائدہ اور اطمینان بھی اس قدر بڑھ کر ہو گا۔۲۔یہ مجتہدین‘اجتہاد کے وقت مجتمع ہوں ‘ جسے بعض محققین باہمی مشاورت کا نام دیتے ہیں ۔ عصر حاضر کے مزاج کے ساتھ یکسانیت اور اس کے و سائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتماع کا معنی طے کیا جائے گا یعنی کسی ایک جگہ میں مجتہدین کا حقیقی اجتماع ہو یا حکمی ہو جیسا کہ ٹیلی فون‘ ٹیلی فونک ذرائع یا انٹر نیٹ وغیرہ جی سے و سائل ربط و تعلق کے ذریعہ باہمی ملاپ اور
Flag Counter