Maktaba Wahhabi

171 - 214
تمام سعودی علماء نے اس کی بالاتفاق تردید کی۔ اس کے بعد ۱۴۲۶ھ میں اہل علم کی ایک مختصر جماعت نے اپنی بعض کتابوں اور ر سائل میں اس دعوت کو دوبارہ عام کیا ہے۔اللہ ہمیں اور اس قلیل جماعت کو اس مسئلے میں اپنے حکم سے ہدایت دے کہ جس میں اختلاف ہو اہے کیونکہ وہی وہ ذات ہے جو جس کو چاہتی ہے سیدھے ر ستے کی ہدایت دیتی ہے۔‘‘ اسلامی قانون ساز ی میں سعودی عرب کا تجربہ باقی اسلامی ممالک کی نسبت بالکل ہی ایک منفرد تجربہ ہے اور بعض شعبوں میں مثلاً فوجداری قوانین(شرعی حدود و تعزیرات کے نفاذ)میں سعودی عرب کی شرعی عدالتوں کے فیصلے پوری دنیا کے لیے قابل اتباع اور ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اب ہم پاکستان مین قانون سازی کی تاریخ کا جائزہ قدرے تفصیل سے لیتے ہیں ۔ پاکستان میں قانون سازی کی تاریخ اگست ۱۹۴۷ء میں انگریزوں نے’قانون آزادی ہند ایکٹ‘ کے تحت ہندو ستان کو دو حصوں انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کر دیا۔ اس ایکٹ میں یہ درج تھا کہ انڈیا اور پاکستان کی قانون ساز ا سمبلیاں جب تک اپنے ممالک کے لیے کوئی آئین وضع نہیں کر لیتی وہ ’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ ۱۹۳۵ء‘ کے تحت نظم و نسق چلاتی رہیں گی۔پاکستان کاپہلا د ستور۱۹۵۶ء میں نافذ ہوا اور اس دوران تقریباً آٹھ یا نو سال مملکت پاکستان میں انگریزوں کے چھوڑے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلے ہوتے رہے۔ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں : ’’عدالتی امور بھی انگریزوں کے چھوڑے ہوئے قوانین کے تحت چلائے جاتے رہے مثلاً تعزیرات پاکستان ۱۸۶۰ء‘ ضابطہ فوجداری ۱۸۹۸ء‘ ضابطہ دیوانی ۱۹۰۸ء اور پولیس ایکٹ ۱۸۱۸ء وغیرہ۔تمام قوانین جو انگریزی ا ستعمار کے دور میں نافذ کیے گئے تھے‘ جوں کے توں جاری رہے اور سالہا سال تک ان میں کسی تبدیلی کا ذکر تو کیا‘ ان میں ضروری رد وبدل پر بھی کسی نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔آزاد ملک کے آزادشہریوں کے لیے پولیس ایکٹ بھی من و عن وہی نافذ کر دیا گیا اور آج تک نافذ ہے‘ جو انگریز حکمرانوں نے اپنے غلاموں کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا تھا۔‘‘[1] اس دوران اگرچہ حکمران طبقہ تو کسی اسلامی قانون کے نفاذ میں عدم دلچ سپی کا اظہار کر تا ہی رہا لیکن ملک کے نامور علماء اور دینی جماعتوں کے قائدین نے اس سلسلے میں خصوصی تحریک چلائی اور اس وقت کے چند جید اصحاب علم مولانا سید أبو الأعلی مودودی‘ سید سلیمان ندوی‘ مولانا شبیر أحمد عثمانی‘ مولانا ظفر أحمد عثمانی‘ مولانا عبد الحامد بدیوانی‘ مولاناظفر أحمد انصاری‘ ڈاکٹر محمد حمید اللہ‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور سردار عبد الرب نشتر رحمہم اللہ کی کوششوں سے پاکستان کی د ستور ساز ا سمبلی نے مارچ۱۹۴۹ء میں ایک قرار داد منظور کی جو قرارداد مقاصد کے نام سے معروف ہوئی۔ڈاکٹر جسٹ س(ر)تنزیل الرحمن لکھتے ہیں : ’’۱۹۴۹ء میں پاکستان کی د ستور ساز ا سمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کی جس کی رو سے پاکستان پر اللہ کی حاکمیت کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اس مقصد کی تکمیل کا ذمہ لیا گیا کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو ان اسلامی تعلیمات اور مقتضیات کے مطابق ڈھال سکیں جو قرآن پاک اور سنت ر سول میں متعین ہیں ۔‘‘[2] ڈاکٹر محمود أحمد غازی اس قرارداد کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ یہ قرار داد آج تک ایک متفق علیہ قانونی اور د ستوری د ستاویز کے طور پر پاکستان کے ہر د ستور میں شامل رہی ہے۔۔۔اف سو س ہے اس طرح کی کوئی جامع اور متفق علیہ د ستاویز مسلم دنیا کے کسی اور ملک کے د ستور میں شامل نہیں ہے۔۔۔ اس قرار داد میں مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی بار‘ بلکہ دنیا کی تاریخ میں بھی پہلی بار‘ اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ دور جدید کے تمام جمہوری تصورات کو اسلام کے د ستوری احکام سے اس طرح ہم آہنگ کردیاجائے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اسلامی تعلیم کے فلاں پہلو کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جمہوری تصورات کا بڑے سے بڑا
Flag Counter