Maktaba Wahhabi

170 - 214
سے جاری ہے۔وہ تجربہ یہ ہے کہ ان نئے معاملات کو جن کا تعلق بین الأقوامی تجارت کے معاملات سے ہو‘ عام عدالتوں کے دائرہ کار سے نکال دیا جائے اور ان کے لیے از سر نو نئے قوانین مرتب کر کے نافذ کیے جائیں۔ یہ کہنا شائدغلط نہ ہو گایوں فقہ اسلامی کی بالا د ستی سے ان مسائل کو مستثنی کر دیا گیا۔ان نئے مسائل کے لیے نئے ضابطے تجویز ہوئے جن کا نام ’نظام‘ رکھا گیا۔‘‘[1] یہ نظام کن قوانین پر مشتمل تھا؟۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر محمود غازی لکھتے ہیں : ’’یہ نظام بعینہ وہ قوانین ہیں جو دو سرے ممالک مثلاً مصر ‘ شام‘ عراق یا کویت میں نافذ العمل ہیں ۔ان میں ترتیب و مندرجات کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔یہ ا سی طرح کے قوانین ہیں جی سے دنیا کے مختلف ممالک میں جاری ہے۔دو سرے ملکوں میں ان کو قوانین اور سعودی عرب میں نظام کہتے ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’نظام‘ کا یہ دائرہ بین الأقوامی تجارت کی حدود سے نکلتا چلا گیا اور نئے نئے موضوعات ’نظام‘ کے دائرے میں شامل ہوتے گئے۔۔۔بقیہ سارے معاملات جن میں سعودی عرب کے انتظامی قوانین‘ وہاں کے اداروں کا داخلی نظم و ضبط‘ حتی کہ باہر سے آنے والے کارکنوں اور مزدوروں کے حقوق‘ مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم،ویزا کے قوانین‘ شہریت کے قوانین‘ یہ سب چیزیں وہ ہیں جو نظام کے تحت طے ہورہی ہیں ۔نظام کی ترتیب کی تیاری میں نہ علماء کرام کا حصہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہے کہ فقہ حنبلی یا شریعت اسلامیہ کے احکام کی روشنی میں اس ’نظام‘ کے منا سب یا غیر منا سب ہونے کا جائزہ لیا جائے۔‘‘[2] ’نظام‘ سے متعلقہ مسائل میں پیش آنے والے مقدمات کا فیصلہ شرعی عدالتوں میں نہیں ہوتا بلکہ ان مسائل و مقدمات کے حل کے لیے علیحدہ سے کچھ ادارے’مجال س‘ کے نام سے قائم کیے گئے ہیں ۔اگرچہ کسی ’مجلس‘ کے تحت پیش آنے والے مقدمے کے فریقین کو یہ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ شرعی عدالتوں میں اپنا مقدمہ لے جا سکتے ہیں ۔بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ’مجلس‘ نے کسی مسئلے میں ایک فیصلہ دیا جبکہ شرعی عدالت نے اس مقدمے میں اس کے بالکل برعکس فیصلہ سنایا۔ڈاکٹر محمود أحمد غازی لکھتے ہیں : ’’ نظام کو شروع ہی سے عدالتوں اور علماء کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا۔شروع ہی میں یہ طے ہو گیا تھا کہ’نظام‘ پر عمل درآمد کے لیے عدالتوں کی بجائے نئے ادارے قائم کیے جائیں گے جن کو ’مجلس‘ کا نام دیا گیا۔یہ’مجلس‘بظاہر ایک کمیٹی ہے لیکن اس کو عملاً وہ تمام عدالتی اختیارات حاصل ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی ایسی عدالت کو حاصل ہوتے ہیں جو تجارتی اور دو سرے قوانین کے مطابق معاملات کا فیصلہ کرتی ہے۔ابتداء میں ان مجلسوں کے روبرو وکلاء پیش نہیں ہوتے تھے۔۔۔بعد میں آہ ستہ آہ ستہ ’مجال س‘ کے روبرو وکلاء کو پیش ہونے کی اجازت دے دی گئی۔اب سعودی عرب میں دو متوازی نظام چل رہے ہیں ۔‘‘[3] انہی جدیدمسائل کے حل کے تناظر میں شرعی بنیادوں پر قانون سازی کی دعوتی تحریک وقتاً فوقتاً اٹھتی رہی ہے لیکن تا حال سعودی علماء ا سے حرام ہی قرار دیتے آ رہے ہیں اور ان کے نزدیک اس کے مفا سد اس کے فوائد سے بڑھ کر ہیں ۔شیخ عبدالرحمن بن سعد الشثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ثم دعا إلی إقامۃ التقنین فی الدیار السعودیۃ بعض الناس فی عھد الملک عبد العزیز بن عبد الرحمن رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فأجمع العلماء رحمھم اللّٰہ تعالیٰ علی ردھا۔ثم دعا إلی إقامۃ التقنین ھذا العام ۱۴۲۶ھ: قلۃ من المنت سبین إلی العلم وبعض کتبہ الجرائد ھدانا اللّٰہ وإیاھم لما اختلف فیہ من الحق بإذنہ إنہ سبحانہ یھدی من یشاء إلی صراط مستقیم۔‘‘[4] ’’بلاد سعودیہ میں قانون سازی کے لیے ملک عبد العزیز بن عبد الرحمن کے زمانے میں بعض علماء نے آواز اٹھائی۔ پس اس وقت کے
Flag Counter