Maktaba Wahhabi

183 - 214
فیصلے کر سکیں تو انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس(یعنی کسی معین مذہب کی پابندی کی)شرط سے نکلنے کی صورت میں قاضیوں کی طرف سے جہالت و ظلم کے پیش نظر ایسے فساد فی الأرض کا اندیشہ ہے جو کسی معین مذہب کی پابندی کے مقابلے میں بڑھ کر ہے تو پھر یہ مسئلہ دو ف سادوں میں سے بڑے فساد کو دفع کرنے کے لیے چھوٹے فساد کو اختیار کرنے کا ہے۔‘‘ مذہب حنفی حنفیہ کے نزدیک اگر قاضی مقلد ہو تو حکمران اس کو معین مذہب کے مطابق فیصلوں کا پابند بنا سکتا ہے اور اگر قاضی اس پابندی کا التزام نہ کرے تو وہ اپنے عہدے سے معزول سمجھا جائے گا۔محمد أمین بن عمر بن عبد العزیزعابدین رحمہ اللہ متوفی ۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں : ’’ فأما المقلد فإنما ولاہ لیحکم بمذھب أبی حنیفۃ فلا یملک المخالفۃ فیکون معزولاً بالن سبۃ إلی ذلک الحکم قال فی الشرنبلالیۃ عن البرھان وھذا صریح الحق الذی یعض علیہ بالنواجذ۔‘‘[1] ’’ پس مقلد قاضی کو حکمران نے اس لیے ولایت دی تھی کہ وہ امام أبو حنیفہ کے مذہب کے مطابق فیصلے کرے پس قاضی کے پاس اس مذہب کے خلاف فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے۔لہذا اگر قاضی نے مذہب کے خلاف فیصلے کیے تو وہ مشروط ولایت کی وجہ سے معزول سمجھا جائے گا۔ ’شرنبلالیۃ‘ میں ’ برہان‘ سے منقول ہے کہ یہ قول صریحاً حق ہے اور اس کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے۔‘‘ لیکن اگر حکمران مقلدقاضی کو معین مذہب کے ضعیف اقوال کے مطابق فیصلوں کا پابند بنائے تو ایسی شرط باطل ہوگی کیونکہ اس صورت میں مقلد قاضی حق کے خلاف فیصلہ کرے گا‘ وہ حق کو مذہب کے صحیح قول میں محصور سمجھتا ہے جبکہ حکمران اس کو ضعیف قول کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا حکم جاری کر رہا ہے اور قاضی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جس کو وہ حق سمجھتا ہے‘ اس کے خلاف فیصلہ دے۔ا ستاذ محمد سلام مدکور‘ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’ وفی ر سائل ابن عابدین عن أنفع الو سائل أن القاضی المقلد لا یجوز لہ أن یحکم إلا بما ھو ظاہر فی المذھب إلا أن ینص الفقھاء علی أن الفتوی علی غیر ذلک وفی حاشیۃ ابن عابدین علی الدر:ولو قید ال سلطان القاضی بصحیح مذہبہ کما فی زماننا تقید بلاخلاف ولو قیدہ بضعیف المذہب فلا خلاف بعدم صحۃ حکمہ وھذان النقلان یشعران بأنہ إذا قیدہ بغیر مذھبہ لا یقید بہ بطریق الأولی کما یشعران بأن ھذا التقیید لا یتجہ إلی المجتھد أیضا بطریق الأولی۔‘‘[2] ’’ابن عابدین رحمہ اللہ کے بعض ر سائل میں ہے کہ مقلد قاضی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مذہب کے ظاہری اقوال کے خلاف فیصلہ کرے سوائے اس کے کہ فقہائے مذہب نے اس بات کو واضح کیا ہو کہ اس مسئلے میں فتوی ظاہر روایت پر نہیں ہے۔حاشیہ ابن عابدین میں بھی ہے کہ اگر حکمران قاضی کو مذہب کے صحیح قول کے مطابق فیصلوں کا پابند بنائے تو بلا اختلاف قاضی اس کا پابند ہو گا جیسا کہ ہمارے زمانے میں ہے۔اور اگر حکمران قاضی کو مذہب کے ضعیف قول کے مطابق فیصلوں کا پابند کرے تو بلا اختلاف حکمران کا یہ حکم صحیح نہ ہو گا۔یہ دونوں فقہی عبارتیں یہ واضح کرتی ہیں کہ اگر حکمران نے قاضی کو اپنے مذہب(یعنی جس کو وہ مقلدقاضی حق سمجھتا ہے)کے علاوہ کسی دو سرے مذہب کا پابند بنایا تو قاضی بطریق اولی اس دو سرے مذہب کے مطابق فیصلوں کا پابند نہ گا(کیونکہ جب ا سی مذہب کے ضعیف قول کے مطابق بھی حکمران اس کو پابند نہیں بنا سکتا تودو سرے مذہب کے اقوال کا پابند کیسے بنا سکتاہے؟)۔ا سی طرح یہ دونوں فقہی عبارتیں یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ یہ قید(کہ قاضی مذہب کے ضعیف قول کے مطابق فیصلے کرے)مجتہدقاضی پر بھی بطریق اولی عائد نہیں کی جا سکتی ہے۔‘‘ أ ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ ‘ ابن عابدین رحمہ اللہ کی ایک اور عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’إذا قید الحاکم القاضی أن یقضی بخلاف مذہبہ وبالضعیف من مذھبہ فھذا التقیید باطل ولم
Flag Counter