والحوار بین العلماء وأھل الذکر من أجل الوصول إلی حکم یرجحونہ فی حالۃ لا نص فیھا من القرآن أو السنۃ۔وھنا یمکن أن یؤدی الاجتھاد إلی مذاھب مختلفۃ وآراء متعددۃ قابلۃ للنمو والتطویر والتعدیل‘ وقد یؤدی التشاور إلی إجماع فی حالات ا ستثنائیۃ وھنا یوصف بأنہ شوری ملزمۃ۔‘[1]
’’فقہی میدان میں شوری و مشاورت کے دو مراحل ہیں : پہلا مرحلہ اہل ذکر اور علماء کے مابین اجتہاد و مکالمے کا ہے تاکہ وہ ان مسائل میں کہ جن میں قرآن و سنت کی کوئی نص موجود نہیں ہے‘ کسی حکم کو راجح قرار دے سکیں ۔یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اجتہاد ایسے مختلف مذاہب اور آراء تک پہنچا دے جو نمو‘ ترقی اور اصلاح کے قابل ہوں ۔ بعض اوقات ا ستثنائی حالات میں یہ مشاورت اجماع تک بھی پہنچا دیتی ہے۔ یہاں اس اجماعی شوری کو لازمی شوری کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔‘‘
اعتقادی مسائل میں اجتماعی اجتہاد
علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اعتقادی مسائل اجتہاد کا محل ہیں یانہیں ۔ ہمارے خیال میں راجح پہلو یہی ہے کہ یہ اجتہاد کا محل ہیں ۔ عقیدے سے متعلق نصوص کے فہم میں بھی علماء کا اختلاف ممکن ہے اور ان کی تطبیق و اطلاق میں بھی۔ مثال کے طور پر قرآن کی آیت ﴿ وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُم ﴾[2]کے بارے علماء کا اختلاف ہے کہ اللہ کی معیت سے مراد کیا ہے؟۔ بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ اس سے اللہ کے ذات اور صفات دونوں اعتبار سے معیت مراد ہے اور اس کی کیفیت مجہول ہے۔ جبکہ علماء کی ایک دو سری جماعت کا خیال ہے کہ یہاں معیت سے مراد اللہ کی صفت علم و قدرت کے اعتبار سے معیت ہے نہ کہ ذات کے پہلو سے‘ کیونکہ ذات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ عرش پر م ستوی ہے۔ علماء کی پہلی جماعت اس کا یہ جواب دیتی ہے کہ اللہ کا عرش پر م ستوی ہونا قرآن سے معلوم ہے اور قرآن میں سات جگہ مذکور ہے لیکن اس کے باوجود اللہ کی معیت ناممکن نہیں ہے۔ وہ عرش پر ہوتے ہوئے بھی‘ ہم جہاں کہیں بھی ہوں ‘ ہمارے ساتھ ہے۔
ا سی طرح اعتقادی آیات کی تطبیق میں بھی اجتہاد ہو گا۔ مثال کے طور پرقرآن و سنت کی روشنی میں کفر یا شرک کا ارتکاب کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن کسی شخص نے أمر واقعہ میں کفر یا شرک کا ارتکاب کیا بھی ہے یا نہیں ‘ یہ اجتہاد کا میدان ہے۔ ڈاکٹر یو سف القرضاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’والذی یظھر لی واللّٰہ أعلم أن مجال الاجتھاد ھو کل م سئلۃ شرعیۃ لیس فیھا دلیل قطعی الثبوت‘ قطعی الدلالۃ۔ سواء کانت من المسائل الأصلیۃ الاعتقادیۃ أم من المسائل الفرعیۃ العملیۃ۔‘‘[3]
’’میری رائے کے مطابق ہر وہ مسئلہ قابل اجتہا دہے کہ جس میں قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ دلیل موجود نہ ہو‘ چاہے وہ أصولی و اعتقادی مسئلہ ہو یا فرعی و عملی مسائل سے اس کا تعلق ہو۔‘‘
تکفیر یعنی کسی کو کافر یا مشرک قرار دینے کے مسائل نہایت حساس و نازک ہیں ۔ ان مسائل میں کسی مفتی کی انفرادی رائے فتنے کا باعث بن سکتی ہے لہذا علماء کی ایک باقاعدہ جماعت ہو جو اس قسم کے مسائل میں تمام شروط‘ موانع اور تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے أمر واقعہ میں کسی شخص‘ گروہ یا جماعت کے بارے میں کسی اجتہادی رائے کا اظہار کرے جیسا کہ پاکستان میں تمام مسالک کے علماء کے اتفا ق رائے سے قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے۔
أصول فقہ کے قواعد أصولیہ میں اجتماعی اجتہاد
بعض علماء کا خیال ہے کہ فروعی مسائل کے علاوہ أصولی مباحث میں بھی اجتہاد ہو سکتا ہے۔ علم أصول فقہ کی بہت سی أبحاث ایسی ہیں جو علماء کے ہاں مختلف فیہ ہیں ۔ قواعد لغویہ اور قواعد عامہ میں أصولیین کے مابین اختلافات أصول کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ مثلاًفعل أمر أصلاً
|