ایسی شیء کہ جس کو سلف صالحین کے زمانے میں بدعات میں شمار کیا گیا ہو‘ اس میں کیا خیر ہو سکتی ہے؟۔‘‘
مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’جہاں تک کتاب و سنت کی بجائے جدید انداز پر دفعہ وار د ستور و قانون کی شکل میں شریعت کی تشکیل نو کا مسئلہ ہے تو تقنین شریعت کی یہ صورت کوئی پختہ اسلامی تصور نہیں ہے بلکہ یہ تصور مغرب سے متاثر جدید ذہن کی پیداوار ہے جو فران س کی تقلید میں مسلمانوں میں درآمد ہوا ہے۔‘‘[1]
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ سلف صالحین کے زمانے میں تقنین کے دواعی موجود نہ تھے لہذا اس کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی ۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ ویمکن أن یجاب عن ھذا أن عدم وجود ھذہ الفکرۃ عند السلف لا یعنی منعھا فلعل دواعیھا لم توجد ورأی الإمام مالک رحمہ اللّٰہ قد خالفہ فیہ غیرہ ولو لم یخالفہ غیرہ لیس قولہ بمجردہ حجۃ۔‘‘[2]
’’ اس اعتراض کا جواب یوں بھی ممکن ہے کہ سلف صالحین کے دور میں اس فکر کے نہ پائے جانے کی وجہ‘ اس کا ان کے ہاں ممنوع ہونا نہیں ہے بلکہ اس دور میں تقنین کے دواعی ہی موجود نہ تھے۔جہاں تک امام مالک رحمہ اللہ کی رائے کا تعلق ہے تو بعض دو سرے علماء کی آراء ان کے خلاف ہیں اور اگر کسی عالم دین نے ان کی رائے کی مخالفت نہ بھی کی ہوتی پھر بھی محض ان کا قول ہونا کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔‘‘
اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ یہ کہنا در ست نہیں ہے کہ سلف صالحین کے دور میں ’ تقنین ‘ کے دواعی موجود نہ تھے۔ابن المقفع نے جو خط خلیفہ جعفر منصور کو لکھا تھا‘ اس میں انہوں نے تقنین کے بعض دواعی کا بھی تذکرہ کیا تھا۔شیخ عبد الرحمن القا سم لکھتے ہیں :
’’ومما ینظر فیہ أمیر المؤمنین من أمر ھذین المصرین وغیرھما من الأمصار والنواحی اختلا ف ھذہ الأحکام المتناقضۃ التی قد بلغ اختلافھا أمراً عظیماً فی الدماء والفروج والأموال۔‘‘[3]
’’جیسا کہ امیر المؤمنین ان دوشہروں اور ان کے علاوہ خلافت اسلامیہ کے دو سرے شہروں اور علاقوں کا حال دیکھ رہیں ہیں کہ ان شہروں میں قصاص ‘ نکاح و زنا اور مالی معاملات کے بارے مختلف شرعی احکام کے تعین میں فقہاء و علماء کا اختلاف بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘
ساتویں دلیل
تقنین کاعمل اجماع امت کی خلاف ورزی ہے کیونکہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ کسی شخص کو مختلف فیہ مسائل میں کسی معین فقہی قول کا پابند نہیں بنایا جا سکتاجیساکہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ وغیرہ نے لکھا ہے۔ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ ولا یجوز أن یقلد القضاء لواحد علی أن یحکم بمذھب بعینہ وھذا مذھب الشافعی ولم أعلم فیہ خلافاً۔‘‘[4]
’’حکمران کے لیے یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو اس شرط پر حکمران بنائے کہ وہ کسی معین مذہب کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کامذہب ہے اور مجھے اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔‘‘
اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ اجماع کا یہ دعوی خلاف واقعہ ہے کیونکہ اس مسئلے میں علماء کااختلاف نقل ہوا ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
|