عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’قولہ فی التعریف(مجموعۃ الأفراد الحائزین علی رتبۃ الاجتھاد)إذ یغنی عن ذلک قول(المجتھد)أو(المجتھدین)۔‘‘ [1]
’’افراد کی ایک ایسی جماعت جو درجہ اجتہاد پر فائز ہو‘ کے الفاظ کی جگہ مجتہد یا مجتہدین کی ایک جماعت کے الفاظ کفایت کرتے تھے۔‘‘
آٹھویں تعریف
ڈاکٹرخالدحسین الخالداجتماعی اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ بعد أن أنعمت النظر فی مزایا التعریفات السابقۃ وفی عیوبھا‘ اقترح التعریف الآتی للاجتھاد الجماعی‘ الذی أری أنہ تعریف جامع مانع‘ فأقول: ھو بذل فئۃ من الفقھاء المسلمین العدول جھودھم‘ فی البحث وا لنظر علی وفق منھج علمی أصولی‘ ثم التشاور بینھم فی مجلس خاص‘ لا ستنباط أو ا ستخلاص حکم شرعی‘ لمسألۃ شرعیۃ ظنیۃ۔ثم اختصر ھذا التعریف بالاکتفاء بالقیود دون الضوابط وعلیہ‘ یصبح حد الاجتھاد الجماعی ھو؛ بذل فئۃ من الفقھاء جھودھم‘ فی البحث والتشاور لا ستنباط حکم شرعی‘ لمسألۃ ظنیۃ۔‘‘[2]
’’اجتماعی اجتہاد کی سابقہ تعریفوں کی خصوصیات اور عیوب پر گہری نظر ڈالنے کے بعدمیں اجتماعی اجتہاد کی ایک ایسی تعریف پیش کرتا ہوں جو میرے خیال میں جامع مانع تعریف ہے۔ پس میں یہ کہتا ہوں : اجتماعی اجتہاد سے مرادعادل و مسلمان فقہاء کی ایک جماعت کاعلم أصول فقہ کے منہج کے مطابق غور و فکر کرتے ہوئے اپنی کوششیں صرف کرنا پھر کسی خاص مجلس میں باہم مشورہ کرنا تاکہ کسی شرعی ظنی مسئلے کا حکم ِشرعی دریافت یا مستنبط کیا جا سکے۔پھر ا سی تعریف کو اس طرح مختصر کیا گیا ہے کہ اس کی قیود تو بیان ہو جائیں لیکن ضوابط بیان نہ ہوں ۔ پس اس اختصار کے ساتھ اجتماعی اجتہاد کی تعریف یوں ہو گی: فقہاء کی ایک جماعت کا کسی ظنی مسئلے سے متعلق حکم شرعی دریافت کرنے کے لیے تحقیق و باہمی مشاورت میں اپنی کوششیں صرف کرنا۔‘‘
اس تعریف پر یہ اعتراض وارد کیا جا سکتا ہے کہ اس میں شرعی احکام کے استنباط کا تذکرہ تو ہے لیکن ان کی تطبیق کا ذکر نہیں ہے‘حالانکہ دونوں ہی اجتہاد ہیں ۔
نویں تعریف
شیخ نصر محمودالکرنزاجتماعی اجتہاد کی تعاریف کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ بعد أن أنعمت النظر فی مزایا التعریفات السابقۃ وفی عیوبھا‘ وبعد ا ستفادتی من تعریفی سانو والخالد‘أصل إلی التعریف المختار الذی أرتضیہ للاجتھاد الجماعی الذی یتنا سب مع التعریف الذی اخترتہ للاجتھاد العام أو الفردی فیصبح التعریف المقترح ھو: بذل فئۃ جھودھم فی البحث والتشاور علی وفق منھج علمی أصولی لتحصیل استنباط أو تطبیق حکم شرعی عقلیاً کان أو نقلیاً قطعیاًکان أو ظنیاً۔‘‘[3]
’’اجتماعی اجتہاد کی سابقہ تعریفوں کی خصوصیات اور عیوب پر غورکرنے اور ڈاکٹر خالد اور محمد قطب سانو کی تعریفوں سے ا ستفادے کے بعد میں اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ اجتماعی اجتہاد کی وہ تعریف جسے میں پسند کرتا ہوں اور بطور تجویز پیش کرتا ہوں اور وہ انفرادی اجتہاد کی اس
|