’’عمومی نوعیت‘ یا عوام الناس کی اکثریت جن سے پریشان ہو وغیرہ جیسی قیود غیر لازمی اوصاف ہیں ۔کیونکہ اگر اجتماعی اجتہاد کسی خاص مسئلے میں جاری ہو جاتا ہے یا خاص نوعیت کے مسائل کے تحت ہوتا ہے تو پھر بھی اس کو اجتماعی اجتہاد ہی کہیں گے۔‘‘
چھٹی تعریف
’ندوۃ الاجتھاد الجماعی فی العالم الاسلامی‘کے علماء نے جامعۃ العین‘ متحدہ عرب أمارات کلیہ شریعہ کے تحت منعقدہ اجل اس میں ۱۹۹۶ء میں اجتماعی اجتہاد کی درج ذیل تعریف بیان کی ہے:
’’ تقرر الندوۃ أن الاجتھاد الجماعی: ھو اتفاق أغلبیۃ المجتھدین‘ فی نطاق مجمع فقھی أو ھیئۃ أو مؤ سسۃ شرعیۃ‘ ینظمھا ولی الأمر فی دولۃ اسلامیۃ علی حکم شرعی عملی‘ لم یرد بہ نص قطعی الثبوت والدلالۃ‘ بعد بذل غایۃ الجھد فیما بینھم فی البحث والتشاور۔‘‘[1]
’’اجتماعی اجتہاد کی مجلس یہ طے کرتی ہے کہ اجتماعی اجتہاد سے مراد کسی ایسی فقہی اکیڈمی‘ انجمن یا شرعی ادارے کے تحت‘ جس کی دیکھ بھال اسلامی ریا ست میں أمیر المؤمنین کر رہے ہوں ‘ علماء کی اکثریت کا باہمی مشاورت و مباحثے میں غایت درجے کی کوشش کرتے ہوئے کسی ایسے مسئلے میں شرعی عملی حکم پر اتفاق کرلینا ہے کہ جس میں قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نص وارد نہ ہوئی ہو۔‘‘
اس تعریف میں بھی مجتہد ین کے اتفاق اور ان کی اکثریت کی قیود اضافی ہیں ۔ا سی طرح فقہی اکیڈمی یا ادارے کے تحت ہی اجتماعی اجتہاد کی شرط بھی ایک اضافی وصف ہے۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’عبارۃ :(فی نطاق مجمع أو ھیئۃ أو مؤ س سۃ)فھذا القید لیس شرطاً فی انعقاد الاجتھاد الجماعی وصحتہ وعلیہ فلو اجتمع جمع من الفقھاء غیر المنت سبین لمجمع أو ھیئۃ أو مؤ س سۃ لصدق علی اجتماعھم واجتھادہم أنہ اجتھاد جماعی۔‘‘[2]
’’ کسی فقہی اکیڈمی‘ انجمن یا شرعی ادارے کے تحت کے الفاظ اجتماعی اجتہاد کے انعقاد یا اس کی صحت کے لیے کسی شرط کی حیثیت نہیں رکھتے ۔ا سی لیے اگر کسی اکیڈمی‘ انجمن یا ادارے سے غیر منسوب فقہاء کی ایک جماعت جمع ہو تو ان کے اس اجتماع اور اجتہاد کو بھی اجتماعی اجتہادہی کہیں گے۔‘‘
علاوہ ازیں اس تعریف میں مترادفات کی کثرت ہے مثلاًایک ہی معنی ادا کرنے کے لیے مجمع‘ ہیئۃ اور مؤ س سۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کسی اصطلاحی تعریف میں ایجاز کا پہلو مدنظر رہناچاہیے کیونکہ مختصر الفاظ میں کسی تصور کی جمیع بنیادی جہات کو جمع کر دینا ہی تعریف کا اصل جوہرہوتا ہے۔علاوہ ازیں اس تعریف میں أمیر المؤمنین اور اسلامی ریا ست کی قیود بھی اضافی اوصاف ہیں ۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’عبارۃ(ینظمھا ولی الأمر فی دولۃ اسلامیۃ)ھذان القیدان محل نظر إذ لیس تنظیم ولی الأمر شرطاً فی تحقق الاجتھاد الجماعی من حیث المصدق أما من حیث الإلزام فذاک شأن آخر وھو خارج عن ماھیۃ الاجتھاد الجماعی وحقیقتہ وکذلک الأمر بالن سبۃ لاشتراط کون الاجتھاد الجماعی فی دولۃ اسلامیۃ فھو غیر مسلم إذ لو اجتمع الفقھاء فی دولۃ غیر اسلامیۃ أو دولۃ ذات أقلیۃ مسلمۃ لصح وصدق علی ذلک أنہ اجتھاد جماعی۔‘‘[3]
’’اسلامی ریا ست اور أمیر المؤمنین کی زیر سر پر ستی کی قیود بھی محل نظر ہیں کیونکہ تصدیق کے پہلو سے اجتماعی اجتہاد کے ثبوت کے لیے
|