اجتماع کو ممکن بنایا جائے۔۳۔مجتہدین کے اجتماع کا بنیادی ہدف و مقصود کسی بھی شرعی حکم کی تلاش ہو ‘ چاہے وہ کوئی خاص مسئلہ ہو یا عمومی نوعیت کا ہو‘ یہ بھی شرط نہیں ہے کہ یہ اجتہاد کسی ادارے یا اکیڈمی کے تحت ہی منعقد ہو جیسا کہ اس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ اس کو سرکاری سرپر ستی حاصل ہو۔ اگرچہ ان اوصاف کا پایا جاناایک اچھی علامت ہے لیکن اجتماعی اجتہاد کی بنیادی شرائط میں سے نہیں ہے۔۴۔معاصر فقہی اکیڈمیوں اور اجماعی افتاء کے اداروں میں واقع شدہ اجتماعی اجتہاد کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اجتہاد صرف احکام شرعیہ اور فقہی مسائل میں محصور نہیں ہے‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بعض غیر فقہی مسائل مثلاً عقائداور أصول دین کے مسائل میں بھی ہوتا ہے جیسا کہ قادیانیوں یا بہائیہ کے بعض فرقوں پرشرعی حکم لاگو کرنا۔‘‘
اجتماعی اجتہاد کی تعریف پر مفصل گفتگو کے بعد اب ہم اس کے شرعی دلائل پر بحث کرتے ہیں ۔
اجتماعی اجتہاد کی مشروعیت کے دلائل
اسلام کے بنیادی مصادر قرآن و سنت ‘ دونوں میں اجتماعی اجتہاد کی مشروعیت کے حق میں دلائل موجود ہیں ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف مسائل میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشاورت کاحکم تھا۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ﴾[1]
’’اور(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)ان سے مختلف امور میں مشاورت فرمائیں ۔‘‘
اس حکم باری تعالیٰ کی تعمیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اس مقالے کے چوتھے باب میں بالتفصیل بیان کریں گے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ابن أبی حاتم رحمہ اللہ ‘حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حدثنایون س بن عبدالأعلی قراء ۃ أنبأ ابن وھب قال سمعت سفیان بن عیینۃ یحدث عن معمر عن ابن شھاب عن أبی ہریرۃ قال: مارأیت أحدا أکثر مشورۃ لأصحابہ من ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔‘‘[2]
’’ہمیں یون س بن عبدالأعلی نے قراء تاً بیان کیاہے کہ انہیں ابن وہب رحمہ اللہ نے خبر دی ہے‘ انہوں نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے سنا‘ وہ معمر رحمہ اللہ سے اور وہ ابن شہاب رحمہ اللہ سے اور وہ حضرت أبوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا۔‘‘
أئمہ سلف نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اسلام میں مشورے کی اہمیت اور فضیلت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ ذیل میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہم تابعین رحمہم اللہ اور سلف صالحین رحمہم اللہ کے کچھ اقوال نقل کر رہے ہیں ۔
’’حدثنا أبو سعید ثنا وکیع عن سفیان عن رجل عن الضحاک فی قولہ و شاورھم فی الأمر قال: ما أمر اللّٰہ نبیہ بالمشورۃ إلا لما یعلم فیھا من الفضل۔‘‘[3]
’’ہم سے أبو سعید نے بیان کیا‘ وہ کہتے ہیں ہم سے وکیع رحمہ اللہ نے بیان کیا‘ وہ سفیان رحمہ اللہ سے ‘ وہ ایک آدمی سے اور وہ ضحاک رحمہ اللہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قول ’’ اور ان سے مختلف امور میں مشورہ کریں ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو مشورے کا حکم نہیں دیا مگر اس وجہ سے کہ جو اس میں فضل و خیر ہے۔‘‘
بعض سلف صالحین کا کہنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشاورت کا جو حکم دیا گیا تھا‘ اگرچہ وحی کے نزول کے زمانے میں اس کی ضرورت نہ تھی لیکن اس مشورے کو جاری کرنے کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ ما بعدکے زمانوں میں آنے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فعل بطور سنت جاری ہو جائے۔ ابن أبی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
|