Maktaba Wahhabi

99 - 214
فصل دوم اجتماعی اجتہاد کی حدود اور دائرہ کار اجتماعی اجتہاد کی حدود و دائرہ کار سے مراد وہ مسائل ہیں کہ جن میں اجتماعی اجتہاد جائز ہے یا کرنا چاہیے۔ اس عنوان کے تحت یہ مبحث بھی داخل ہے کہ کن مسائل میں اجتماعی اجتہاد جائز نہیں ہے۔ جن مسائل و أمور میں اجتہاد کیاجاتا ہے‘ اس کو علماء کی اصطلاح میں ’مجال الاجتھاد‘بھی کہتے ہیں ۔أصول کی کتابوں میں فقہاء اس بحث کو’مجال الاجتھاد‘یا ’مجتہد فیہ ‘ مسائل یا ’مسائل اجتہاد‘ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں ۔ عام طور پر فقہاء نے بیان کیا ہے کہ اجتہاد کا دائرہ کار دو قسم کے مسائل ہیں ایک وہ کہ جن میں کوئی صریح نص وارد نہ ہوئی ہو اور دو سرا وہ جو ظنی الدلالۃ ہوں ۔ ڈاکٹر أحمد حسن حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ بات واضح رہے کہ شریعت کے تمام أحکام اجتہاد کا موضوع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘ اس لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ ہر اس حکم شرعی میں اجتہاد ہو سکتا ہے جس کے بارے میں کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو۔ یعنی جن شرعی احکام کے بارے میں قطعی دلائل وارد ہوئے ہیں وہ اجتہاد اور اختلاف کے محتمل نہیں ہو سکتے۔جی سے نماز و روزہ کی فرضیت اور زنا کی حرمت۔۔۔جن أحکام کے بارے میں قطعی نصوص وارد نہیں ہوئیں ‘ بلکہ ان کے بارے میں جو نصوص ملتی ہیں وہ یا تو ظنی الثبوت ہیں ‘ یا ظنی الدلالۃ‘ ایسے أحکام میں اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔۔۔اجتہاد ان مسائل میں بھی کیا جاتا ہے جن کے بارے میں شار ع کی طرف سے کوئی نص ہی وارد نہیں ہوئی۔ اس لیے مجتہد شریعت کے دو سرے دلائل ‘ جی سے قیا س‘ کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔‘‘[1] اجتہاد کے مجال کو ہم دو اعتبارات سے موضوع بحث بنا سکتے ہیں ۔ ایک تو مجتہد فیہ مسائل کے پہلو سے اور دو سرا مجتہدین کے اعتبار سے ۔ ذیل میں ہم ان دونوں پہلوؤں سے ایک مفصل گفتگو پیش کر رہے ہیں ۔ زیر بحث مسئلہ کے اعتبار سے اجتماعی اجتہاد کا دائرہ کار علماء نے زیر بحث مسئلہ کے اعتبار سے اجتماعی اجتہاد کی کئی ایک قسمیں بیان کی ہیں ۔یعنی کون سے مسائل یا میدان ایسے ہیں جن میں اجتماعی اجتہاد کے منہج و طریقہ کار کو لازمی اختیار کرنا چاہیے‘ ذیل میں ہم ان کا ایک خلاصہ نقل کر رہے ہیں ۔ جدید مسائل میں اجتماعی اجتہاد جدید مسائل میں اجتماعی اجتہاد وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ نئے مسائل اس قدر گنجلک اور پیچیدہ ہیں کہ فرد واحد کے لیے ان میں کوئی شرعی رہنمائی جاری کرنا ایک مشکل أمرہے۔ اگر فرد واحد ان مسائل میں ذاتی رائے سے اجتہاد پیش کرے گا تو اس میں خطا کا امکان بڑھ جائے گا۔ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ وھکذا نجد أن میادین الاجتھاد الجماعی فی المستجدات متعددۃ وتتسع لتشمل الکثیر من القضایا الاقتصادیۃ والطبیۃ والعلمیۃ والأخلاقیۃ والمدنیۃ والحربیۃ والسیا سیۃ وکل ما لہ صلۃ بالحیاۃ الیومیۃ۔۔ھذہ الأمور منفردۃ ومجتمعۃ ‘ مبسطۃ ومعقدۃ‘ متشابھۃ ومتباینۃ ‘ تتمثل فیھا حیاۃ المسلم العملیۃ الیومیۃ‘ ولا بد للبحث فیھا ودرا ستھا درا سۃ علمیۃ مفیدۃ‘ من تصور صحیح‘ وا ستیفاء کامل الکافۃ جوانبھا الواقعیۃ والعلمیۃ أولاً‘ ثم الشرعیۃ ثانیاً‘ ولن یتم ذلک علی الوجہ الأکمل إلا عبر الاجتھاد الجماعی۔‘‘[2]
Flag Counter