’’پہلاقول تو یہ ہے کہ حاکم کے لیے قاضی پر یہ شرط عائد کرنا جائز نہیں ہے کہ قاضی اپنے فیصلوں میں کسی معین مذہب کی پابندی کرے۔یہی جمہور مالکیہ‘ شافعیہ اور حنابلہ کا قول ہے اور ا سی قول کو قاضی أبو یو سف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ابن قدامہ رحمہ اللہ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مجھے اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ا سی قول کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی پسند کیا ہے اور اس پر علماء کا اتفاق بھی نقل کیا ہے۔‘‘
دو سرا قول حنیفہ کا ہے جس کے مطابق کوئی حاکم کسی قاضی کو فیصلے کرنے میں کسی خاص مذہب کا پابند کر سکتا ہے۔ بعض مالکیہ اور شافعیہ بھی ا سی کے قائل ہیں ۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’یجوز الإلزام بالحکم بمذھب معین ویصح اشتراط الحاکم علی القاضی أن یقضی بہ وإلی ھذا القول ذھب الحنفیۃ وھو قول عند المالکیۃ وبہ قال السبکی وغیرہ من الشافعیۃ۔‘‘[1]
’’دو سرے قول کے مطابق قاضی کو کسی معین مذہب پر فیصلہ کرنے کا پابند بنایا جائز ہے۔ا سی طرح حاکم کا قاضی پر یہ شرط لگانا بھی صحیح ہے کہ وہ اس کسی معین مذہب کے مطابق فیصلے کرے۔ اس قول کوحنفیہ نے اختیار کیا ہے اور مالکیہ کے ہاں بھی یہ ایک قول ہے اور بعض شوافع مثلاً امام سبکی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کو اختیار کیا ہے۔‘‘
بعض علماء نے اس قول کی نسبت امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف بھی کی ہے۔شیخ عامر بن عیسی اللھولکھتے ہیں :
’’القول الثانی یجوز للحاکم أن یلزم القاضی بالحکم بمذھب معین وھذا قول أبی حنیفۃ وقد خالفہ صاحباہ کما تقدم۔‘‘[2]
’’دو سرے قول کے مطابق حاکم کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ قاضی کو کسی معین مذہب کے مطابق فیصلے کرنے کا پابند بنائے ۔یہ امام أبو حنیفہ کا قول ہے اور صاحبین نے اس مسئلے میں امام صاحب سے مخالف رائے دی ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔‘‘
اس مختصر جائزے کے بعد اب ہم قدرے تفصیل سے اس مسئلے میں مذاہب أربعہ کے فقہاء کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں ۔
مذہب مالکی
مالکیہ کے معروف قول کے مطابق حاکم کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مجتہدقاضی کو کسی معین مذہب کے مطابق فیصلوں کا پابند بنائے۔محمد بن عبد الرحمن الحطاب رحمہ اللہ متوفی ۹۵۴ھ لکھتے ہیں :
’’ قال ابن الحاجب: وللامام أن ی ستخلف من یری غیر رأیہ فی الاجتھاد والتقلید ولو شرط الحکم بما یراہ کان الشرط باطلاً والتولیۃ صحیحۃ۔۔۔قال فی التوضیح للامام أن ی ستخلف من یری غیر رأیہ کالمالکی یولی شافعیاً أو حنفیاً ولو شرط أی: الإمام علی القاضی الحکم بما یراہ الإمام من مذھب معین أو اجتھاد لہ کان الشرط باطلاً وصح العقد وھکذا فی الجواھر عن الطرطوشی وقال غیرہ: العقد غیر جائز وینبغی ف سخہ وردہ وھذا إنما ھو إذا کان القاضی مجتھدا وھکذا فرض المازری المسألۃ فیہ۔‘‘[3]
’’امام ابن حاجب رحمہ اللہ (متوفی ۶۴۶ھ)فرماتے ہیں : امام(حکمران)کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو اپنا نائب بنائے جو اجتہاد یا تقلیدکرنے میں امام کی رائے کا قائل نہ ہو۔لیکن اگر امام نے یہ شرط لگا دی کہ اس کا نائب وہی فیصلہ کرے گا جو امام کی رائے کے مطابق ہو تو یہ شرط باطل ہے اور ایسی امارت صحیح ہے۔۔۔’توضیح‘ میں ہے کہ امام کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو اپنا نائب بنا لے جو اس
|