Maktaba Wahhabi

154 - 214
معاشرے میں امن کے قیام کی بجائے فساد بڑھے گا۔ پس علماء کی ایک جماعت نے ان حالات میں یہ رائے پیش کی کہ اسلامی قانون کو مدون شکل میں ہونا چاہیے ‘ جس میں فقہاء کی چنیدہ آراء کو جمع و ترتیب کے بعد جدیدقانونی عبارتوں کی صورت میں ڈھال کر نافذ کر دینا چاہیے۔قانون سازی کی اس تحریک کے پش منظر میں کیا دواعی و محرکات تھے‘ علماء کی ایک جماعت ان کو یوں بیا ن کرتی ہے: ’’مما تقدم یتبین أن الدواعی إلی تدوین القول الراجح وإلزام القضاۃ بہ ھی:۱۔وقوع أحکام اجتھادیۃ متناقضۃ فی قضایا متماثلۃ‘ أدت إلی اتھام القضاہ باتباع الھوی فیما یقضون أو برمیھم بالقصور فی علمھم أو تطبیقھم لما عرفوا من الأحکام الشرعیۃ علی ما رفع إلیھم من القضایا الجزئیۃ المتنازع فیھا۔۲۔عدم وجود کتاب سھل العبارۃ فی المعاملات یتعرف منہ الناس أحکام المعاملات لیراعوا تطبیقھا ویوفقوا بینھا وبین أعمالھم عند الأقدام حتی لا یقعوا فیما یعرضھم للحکم علیھم۔۔۔۳۔ تھرب بعض الناس من رفع قضایاہ للمحاکم الشرعیۃ بالمملکۃ إلی رفعھا لمحاکم فی دول أجنبیۃ نتیجۃ لما تقدم ذکرہ والخوف من أن یتزاید ذلک حتی ینتھی عیاذاً باللّٰہ إلی ا ستبدال قوانین وضعیۃ بالأحکام الشرعیۃ۔‘‘[1] ’’ سابقہ أبحاث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ راجح فقہی قول کی تدوین اور ججوں کو اس کا پابند کرنے کے محرکات درج ذیل ہیں :۱۔پہلا داعیہ تو یہ بیان کیاگیاہے کہ ایک ہی جی سے مقدمات میں متناقض اجتہادی فیصلوں کی وجہ سے عوام الناس نے قاضیوں اور ججوں پراپنے فیصلوں میں خواہش نفس کی پیروی کرنے یا ان پر شرعی احکام کے ناقص علم یا متنازع فیہ جزوی مقدمات میں شرعی احکام کو جاننے کے باوجود فقہ الواقع سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے شرعی قانون کی تطبیق میں قصور کی تہمتیں لگائیں ۔۲۔ تقنین کادو سرا داعیہ یہ بیان ہوا ہے کہ معاملات زندگی کے بارے میں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جو آ سان زبان میں ہو اور لوگ اس سے روزمرہ معاملات کے احکام جان سکیں ۔ لوگ اس بات سے بھی واقف ہوں کہ ان احکام کا اطلاق کب ہوتاہے تاکہ وہ کوئی کام کرتے وقت اپنے اعمال و افعال اور مدون شرعی احکام میں موافقت پیدا کریں اور لاعلمی میں کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہ کر گزریں جس کی وجہ سے کوئی شرعی حکم ان پرلاگوہو جائے۔۔۔۳۔ا سی طرح بعض لوگوں کا اپنے معاملات کو ملکی شرعی عدالتوں سے حل کروانے کی بجائے اجنبی ممالک کی عدالتوں کی طرف رجوع کرناا سی عدم تقنین کا نتیجہ ہے کہ جس کا ہم ذکر کر چکے ہیں ۔ اب تو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ یہ صورت حال بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جائے کہ احکام شرعیہ کو احکام وضعیہ(انسانی قوانین)سے تبدیل کرنے کے مطالبات جاری ہو جائیں ۔‘‘ یہی وہ دواعی و محرکات تھے جن کی وجہ سے بعض اہل علم نے یہ خیال پیش کیا کہ ایک معین فقہی مذہب یا مختلف فقہی مذاہب کی روشنی میں راجح اقوال کی تدوین کر لی جائے تا کہ ایک طرف عوام الناس کو اپنے افعال اور ان کے بارے شرعی احکام سے مدون قانون کے ذریعے آگاہ کیا جائے جبکہ دو سری طرف ججوں کے لیے بھی یہ سہولت ہو کہ وہ مقدمات کا فیصلہ آ سانی سے کر سکیں اوروہ ان الزامات سے بھی بری ہو جائیں جوقانون مدون نہ ہونے کی صورت میں عوام الناس کی طرف سے ان پر عائد کیے جاتے ہیں ۔ شرعی احکام کی قانون سازی کے محا سن احکام شرعیہ کی تقنین کے قائلین اس کے کئی ایک محا سن کا تذکرہ کرتے ہیں ‘جن کا خلاصہ یہ ہے: 1۔ اگر مذکورہ بالا طریقے کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں دی گئی فقہی آراء و مذاہب کو قانونی شکل میں مدون کر دیا جائے تو جج حضرات‘ ماہرین قانون اور عوام الناس کے لیے کسی بھی مسئلے کے بارے شرعی قانون کو معلوم کرنا آ سان ہوجائے گااور اگر معاملہ تقنین کے بغیر یوں ہی چھوڑ دیاجائے تو عام اشخاص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآ ن و سنت یا أئمہ سلف کی آراء سے شرعی قانون معلوم کر سکیں ۔علاوہ ازیں
Flag Counter