Maktaba Wahhabi

137 - 214
شوری کے قرآنی حکم کی تعمیل قرآن مجید میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف مسائل میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ﴾[1] ’’اور(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)ان سے مختلف امور میں مشاورت فرمائیں ۔‘‘ بعض مف سرین نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کایہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ مارأیت أحدا أکثر مشورۃ لأصحابہ من ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔‘‘[2] ’’میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا۔‘‘ بعض أئمہ سلف کی رائے یہ ہے کہ آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشاورت کا جو حکم دیا گیا تھا‘ اس کے جاری کرنے میں حکمت یہ تھی کہ ما بعدکے زمانوں میں آنے والوں کے لیے بطور سنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فعل جاری ہو جائے۔حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ قد علم أنہ لیس بہ إلیھم حاجۃ وربما قال: لیس لہ إلیھم حاجۃ ولکن أراد أن ی ستن بہ من بعدہ۔‘‘[3] ’’یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورے کی حاجت وضرورت نہ تھی‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے ما بعد والوں کے لیے اس بارے میں کوئی سنت جاری کریں ۔‘‘ ’’ قال أبو جعفر: وأولی الأقوال بالصواب فی ذلک أن یقال: إن اللّٰہ عز وجل أمر نبیہ صلي اللّٰه عليه وسلم بمشاورۃ أصحابہ فیما حزبہ من أمر عدوہ ومکاید حربہ تألفاً منہ بذلک من لم تکن بصیرتہ بالاسلام البصیرۃ التی یؤمن علیہ معھا فتنۃ الشیطان وتعریفاً منہ أمتہ مأتی الأمور التی تحزبھم من بعدہ ومطلبھا لیقتدوا بہ فی ذلک عند النوازل التی تنزل بھم فیتشاوروا فیما بینھم کما کانوا یرونہ فی حیاتہ صلي اللّٰه عليه وسلم یفعل۔‘‘[4] ’’ابن جریر طبری رحمہ اللہ کاکہناہے کہ( اس آیت کی تفسیر میں وارد تین متنوع اقوال میں سے) سب سے بہتر قول ان مف سرین کاہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ عز و جل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے‘ دشمنان اسلام کی ان جنگی چالوں وغیرہ کے بارے میں مشورہ کرنے کا حکم جاری فرمایاکہ جن سے آپ کو سابقہ پڑتا تھاتاکہ اس مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت محسوس کریں کہ جن کی اسلام کے بارے میں بصیرت اس قدر واضح نہیں تھی کہ وہ اس بصیرت کے ہوتے ہوئے شیطان کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتے اور( اس مشورے کا ایک اور فائدہ یہ بھی تھا )کہ اس مشورے کے عمل سے أمت کو ان مختلف مسائل کے پیش آنے اور ان کی تلاش کے(طریقہ کے)حوالے سے متنبہ کرنا مقصود تھا کہ جو امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد درپیش آنے والے تھے تاکہ مختلف حوادث کے پیش آنے کے وقت وہ اس فعل(مشاورت)میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور آ پس میں ا سی طرح مشورہ کریں جس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کو مشورہ کرتے دیکھتے تھے۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ﴾[5] ’’اور ان(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )کے فیصلے باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں ۔‘‘ ڈاکٹر عبد المجید السؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
Flag Counter