اتفاق کا معاملہ ہے تو وہ اجتماعی اجتہاد کے اس فعل کا نتیجہ ہے۔مباحثے و مکالمے کے بعدبعض اوقات یہ اتفاق حاصل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتا۔ہمارے نقطہ نظر میں ایک متعین مسئلہ میں علماء کے باہمی مکالمے و مباحثے کے بعداگر دو افراد کے مابین بھی اتفاق حاصل نہ ہو تو اس کو بھی اجتماعی اجتہاد کہیں گے کیونکہ ایک شرعی مسئلے کی تلاش میں اجتماعی کوشش تو صرف ہوئی ہے۔ اس لیے علماء کی اکثریت کا اتفاق اجتماعی اجتہاد کے عمل کے لیے خارجی وصف کی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ رکن کی اہمیت کا۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ عبارۃ:(اتفاقھم)و(اتفاق)فھذا الوصف خارج عن ماھیۃ الاجتھاد الجماعی إذ الاتفاق أحد نتائج ھذا الاجتھاد وفرق بین الشیء ونتیجتہ‘ وإنہ لیس من شرائط تحیقق الاجتھاد الجماعی أن یخرج منہ المجتھدون بالاتفاق بل لو أنھم اجتمعوا وتباحثوا ولم یتوصلوا إلی شیء أو حصل منھمتوقف لصدق علی ذلک أنہ اجتھاد جماعی۔‘‘[1]
’’فقہاء یا مجتہدین کے اتفاق کی قید ایک ایسا وصف ہے جو اجتماعی اجتہاد کی ماہیت سے خارج ہے کیونکہ ان کا اتفاق تو اس عمل اجتہاد کا ایک نتیجہ ہے اور کسی شیء اور اس کے نتیجے کے مابین فرق ایک واضح أمر ہے۔اجتماعی اجتہاد کے ثبوت کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ اس پر تمام مجتہدین کا اتفاق ہو تو پھر ہی وہ اجتماعی اجتہاد ہوتا ہے بلکہ اگر مجتہدین کی ایک جماعت نے جمع ہو کر آ پس میں مباحثہ کیا اور کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے یا انہوں نے کسی مسئلے میں توقف اختیار کیا توپھر بھی اس عمل کو اجتماعی اجتہاد ہی کہیں گے۔‘‘
تیسری تعریف
ڈاکٹر توفیق الشاوي حفظہ اللہ اجتماعی اجتہا د کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جری العرف علی أن المقصود بالاجتھاد الجماعی ھو تخصیص مھمۃ البحث وا ستنباط الأحکام بمجموعۃ محدودۃ من العلماء والخبراء والمتخصصین ‘ سواء ما ر سموا ذلک بالشوری المر سلۃ‘ أم فی مجلس یتشاورون فیہ ویتداولون‘ حتی یصلوا إلی رأی یتفقون علیہ أو ترجحہ الأغلبیۃ‘ ویصدر قرارھم بالشوری ولکنہ یکون فی صورۃ فتوی۔‘‘[2]
’’عرف کے مطابق اجتماعی اجتہاد سے مرادبحث و تحقیق اور استنباط احکام کا کام علماء ‘ ا سکالرز اور ماہرین فن کی ایک متعین جماعت کو سونپ دینا ہے۔ اب برابر ہے کہ وہ سب ایک ایسی مشاورت قائم کریں جو کھلی اور عام ہو(مثلاپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا وغیرہ کے ذریعے)یا وہ ایک مجلس مشاور ت کا اہتمام کریں کہ جس میں وہ اس موضوع پر مشورہ اور گفتگو کریں یہاں تک کہ وہ سب یا ان کی اکثریت ایک متفقہ رائے تک پہنچ جائے۔ان کی پاس شدہ تجویزباہمی مشاورت سے جاری ہو لیکن وہ فتوی کی صورت میں ہو۔‘‘
اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف پر سب سے بڑا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ تمام اصولیین اور فقہاء کے نزدیک اجتہاد کے لیے مجتہد ہونا لازم ہے اور اس کی مخصوص شرائط ہیں ۔ پس اجتماعی اجتہاد بھی ایسے افراد کا فعل ہو گا جو مجتہدین امت ہوں ۔جبکہ اجتماعی اجتہاد کی مذکورہ بالا تعریف میں ماہرین معاشیات‘ متخصصین طب اور فقہائے امت کی حیثیت برابر ہے او ر ان سب کے فعل کو اجتہاد کہا جارہا ہے اور یہ بات قطعی طور پرمعلوم ہے کہ ایک ماہر سرجن یا انجینئر یا پی۔ ایچ۔ ڈی اکنامکس مجتہد تو کیا ‘ دین کے ایک ابتدائی طالب علم جتنا علم دین بھی نہیں رکھتے ہیں إلا ما شاء اللہ۔ اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف کو ماننے سے یہ لازم آئے گا کہ اجتہاد کو علمائے مجتہدین اورماہرین فن عامۃ الناس کا ایک فعل قرار دیا جائے نہ کہ صرف مجتہدین امت کا۔
اس تعریف پردو سرا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ فرض کریں ‘ د س افراد کی ایک جماعت مل کر کسی معاشی مسئلے میں غور کرتی ہے جن میں سے
|