صاحب کا اصل اضطراب یہ ہے کہ ان کی اس قدر پُر زورکے باوجود بھی لوگ قدیم فقہی مذاہب و آراء پر اعتماد کیوں کرتے ہیں ۔ جو ملت چودہ سو سال تک أئمہ سلف سے اپنا رشتہ جوڑنے پر مصر رہی ہو وہ جناب راشد شاذ کے عظیم مشوروں کی بدولت اپنے آباؤو اجداد اور ان کی علمی میراث سے قطع تعلقی پرکیسے آمادہ ہو جائے گی؟۔لوگ صدیوں سے قرآن و سنت کی تفہیم میں أئمہ سلف کو اہمیت دیتے رہے ہیں اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
قطعی الدلالۃوقطعی الثبوت نصوص کی تطبیق میں اجتہاد
بعض اہل علم کی طرف سے یہ رائے سامنے آئی ہے کہ قطعی الدلالۃ و قطعی الثبوت نصوص کے معنی و مفہوم کی تعیین میں تو اجتہادنہیں ہو سکتا ہے لیکن ان نصوص کی تطبیق میں اجتہاد کی گنجائش ضرور موجود ہے۔مولانازاہد الراشدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ اس عقل کی کار ستانیوں کا مشاہدہ ہم گزشتہ دو صدیوں کے دوران مغرب میں کر چکے ہیں جہاں انسانی خواہشات کی سان پر چڑھ کر اس عقل عام نے زنا‘ عریانی‘ سود اور ہم جن س پر ستی جیسی لعنتوں کو بھی جواز کا درجہ دے دیا ہے بلکہ انھیں انسانی حقوق کے زمرے میں شمار کر لیا ہے۔ہمارے خیال میں احکام شرعیہ کا مدار مقاصد و مصالح کو قرار دے کر مقاصد و مصالح کے بدلتے ہوئے معیارات کی بنیاد پر قرآن و سنت کے منصوص احکام میں تغیر و تبدل کے را ستے تلاش کرنے کی موجودہ کوششوں کو مغرب کے اس فکری و تہذیبی انقلاب سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اگرچہ اس کے لیے اصطلاح ’’اجتہاد‘‘ ہی کی استعمال کی جاتی ہے لیکن اس کے اہداف ومقاصد کا رشتہ’’ اجتہاد‘‘ کی بجائے تشکیل نو سے جا ملتاہے جواسلام کی بجائے مغرب کی اصطلاح ہے اور مارٹن لوتھر کے فکری اور تہذیبی انقلاب کا کرشمہ ہے جس کے خوفناک نتائج سے آج خود مغرب بھی حیرا ن و پریشان ہو رہاہے‘ اس لیے قرآن و سنت کے صریح احکام میں تغیر و تبدل کے لیے مقاصد ومصالح ‘ عقل عام اور انسانی فہم و دانش کو واحد معیار اور مدار قرار دے کر ان کی تشکیل نو کے تصور کو نہ عقلی طور پر قبول کیاجا سکتاہے اور نہ ہی اسلام کا چودہ سو سالہ اجماعی تعامل اور قرآن و سنت کے طے شدہ اصول اس کی اجازت دیتے ہیں ۔البتہ قرآن و سنت کے بیان کردہ صریح احکام و قوانین کو ابدی اور غیر متبدل تسلیم کر لینے اور ان کی قطعیت و ابدیت پر مکمل ایمان کے بعد ان کے اطلاق و نفاذ اور تطبیق کے حوالے سے زمانے کے تغیرات ‘ ضروریات کے تنوع اور احوال کے اختلاف کا لحاظ رکھنا اس سے مختلف امر ہے اور اس کی گنجایش ہر زمانے میں موجود رہی ہے ۔ہماری رائے میں پہلی بات کا تعلق تشکیل نو سے ہے جبکہ دو سری بات کا تعلق اجتہاد سے ہے اور اسلام اجتہاداور تجدید کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی ترغیب دیتا ہے اور اس پر اجر و ثوب بھی بیان کرتا ہے ۔‘‘[1]
اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شرعی حکم کے اطلاق میں بھی اجتہاد کیا جاتا ہے‘ تحقیق المناط کا اصل موضوع ہی یہی ہے۔ہمیں جناب مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے تصور اجتہاد سے تو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس تصور کی تفہیم کے لیے انہوں نے جو الفاظ اختیار کیے ‘ ہمارے خیال میں ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہم مولانا کے اس تصور کو ن سبتاً محتاط الفاظ میں کچھ یوں واضح کرتے ہیں کہ یہ کہنا در ست نہیں ہے کہ کوئی قطعی الدلالۃ و قطعی الثبوت شرعی حکم اپنے اطلاق میں بعض حالات‘ مصالح و عرف کی رعایت رکھتے ہوئے تبدیل بھی ہو جاتا ہے۔عرف و احوال کی رعایت رکھتے ہوئے حکم شرعی تو تبدیل نہیں ہوتا لیکن علماء کے فتاوی و اجتہادات ضرور تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ا سی طرح جن شرعی احکام کو عر ف وحالات سے متعلق کر دیا گیاتو ان میں بھی حکم شرعی میں تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ ان احکامات میں شروع ہی سے ہر زمانے کے حالات و وقائع کا لحاظ موجود ہوتاہے۔مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾[2]
’’اوران عورتوں کے لیے حقوق ہیں مانند اس کے کہ جیسی ان پر ذمہ داریاں ہیں عر ف کے مطابق۔‘‘
|