Maktaba Wahhabi

60 - 214
ہی سے ثابت ہے۔علماء نے احکام شرعیہ کے استنباط وا ستخراج میں ان قواعد کے مآخذ یا مصادر ہونے کے دلائل اصول کی کتابوں میں اکھٹے کر دیے ہیں ۔ مجمع علیہ مسائل کے خلاف اجتہاد جس طرح نصوص قرآن و سنت کی موجودگی میں اجتہادجائز نہیں ہے ا سی طرح مجمع علیہ مسائل میں بھی کوئی نیا اجتہاد پیش کرنا جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس مسئلے کا تعلق عرف یا ظروف و أحوال سے ہواور عرف یا حالات کی تبدیلی سے اس مجمع علیہ مسئلے کی نئی صورت پیدا ہو جائے۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والے مفکر جناب راشد شاذ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ تمام قدیم فقہی مذاہب و آراء کو آن واحد میں یک سر م سترد کرتے ہوئے نئے سرے سے قرآن کی شرح و تفسیر کی جائے اور جدید حالات اور تہذیب و تمدن کے مطابق سارے دین کی ایک ایسی تعبیر نو کی جائے کہ جس میں کسی سابقہ عالم دین کا تذکرہ یا حوالہ تک موجود نہ ہو۔جناب راشد شاذ صاحب لکھتے ہیں : ’’جدید مصلحین کو ابتداء ہی سے اس بات کا التزام کرنا ہو گا کہ وہ تاریخی اسلام اور نظری اسلام میں نہ صرف یہ کہ امتیاز کریں بلکہ مطالعہ قرآنی میں ایک ایسے منہج کی داغ بیل ڈالیں جس کے ذریعے انسانی تعبیرات اور التبا سات کے پردوں کا چاک کیا جانا ممکن ہو۔اور یہ جب ہی ممکن ہے جب ہر مسئلہ کو از سر نو تحقیق و تجربہ کا موضوع بنایا جائے اور ہر مسئلہ پر قرآنی دائرہ فکر میں از سر نو گفتگو کا آغاز ہو۔یقین جانیے اگر ہم قرآن مجید کو حکم مانتے ہوئے اپنے تہذیبی اور علمی ورثے کا ناقدانہ جائزہ لینے کی جرأت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم خود فکری طور پر نزول وحی کے ان ایام میں پائیں گے جب وحی کی ضیا پاشیاں ہمارے قلب و نظر کو منور اور ہمارے ملی وجود کو طمانیت سے سرشار رکھی تھیں۔‘‘[1] جناب راشد شاذ تجدد پسند مفکرین و مصلحین کو بڑا اچھا مشورہ فراہم کر رہے ہیں لیکن سوال تویہ ہے کہ جتنا عرصہ ان مصلحین کو دین کی نئی تعبیر میں لگے گاتو اس وقت تک یا تو یہ مصلحین اس دنیا سے رخصت ہو کر قدماء میں شامل ہو چکے ہوں گے یا پھر دنیا بہت ترقی کر چکی ہو گی لہذا آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان مفکرین کی نئی تعبیر دین قدیم بن جائے گی اور اگر اس آئندہ آنے والی ن سل کو سابقہ متجددین کی فکر سے اتفاق نہ ہوا تو یہی کہیں گے کہ اس قدیم تعبیر دین کو بھی ترک کرتے ہوئے دین کی کسی نئی تعبیر کی تلاش میں سرگرم ہو جاؤ اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ اس طرح چودہ صدیوں میں اگر دین کی چھ یا سات تعبیریں تھیں تو اب ایک صدی میں سینکڑوں نئی تعبیریں وجود میں آ جائیں گی اور ایک عامی اور غیر مسلم کے لیے تعبیرات کے اس سمندر میں دین اسلام کو تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔ایک اور جگہ راشد شاذ صاحب لکھتے ہیں : ’’نئے مصلحین کو اس بات کا التزام بھی کرنا ہو گاکہ وہ وحی ربانی کے مقابلہ میں صدیوں کے متوارث عمل کو‘ خواہ اس پر مفروضہ اجماع کی مہر ہی کیوں نہ لگ گئی ہو‘ از سر نو تحلیل و تجزیے کا موضوع بنائیں ۔اب یہ کہنے سے کام نہیں چلے گاکہ کسی مخصوص مسئلے پر فلاں فلاں فقہاء اور أئمہ کی کتابوں میں یوں لکھا ہے یا یہ کہ فلاں مسئلہ پر امت کا اجماع ہو چکا ہے جسے از سر نو بحث کی میزپر نہیں لایا جا سکتا۔خدا کے علاوہ ان سانوں کے کسی گروہ کو اس بات کااختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اجماع کی دھونس دے کر یااہل حل و عقد کے حوالے سے ہمیں کسی مسئلہ پر تحلیل و تجزیے سے باز رکھے۔‘‘[2] معلوم نہیں !راشد صاحب کو کس نے اجماع کی دھونس لگادی۔یہاں تو لوگ سنت‘ سنت کیا قرآن کا انکار کر دیتے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ قادیانی‘ اہل تشیع‘ منکرین حدیث وغیرہ ا سی ہند و پاک کے معاشرے میں رہتے ہیں ۔آج تک انہیں تو کسی نے اجماع کی دھونس نہیں لگائی۔ اگر تو راشد شاذ صاحب کا اجماع کی دھونس سے مراد کسی عالم دین کا اجماع کی پابندی کرنے پر زور دینااور اس سے متعلقہ علمی دلائل کو بیان کرنا ہے تو پھر یہ دھونس تو راشد شاذ بھی یہ کہہ کر علماء کو لگا رہے ہیں کہ’ اجماع کی پابندی نہ کرو‘۔راشد
Flag Counter