ہمیں ان کی مصلحت کا علم ہو یا نہ ہو۔ لیکن بعض احکامات ایسے ہوتے ہیں جو کسی معین مصلحت کے ثبوت کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں ۔ پس جب مصلحت تبدیل ہو جائے یا ختم ہو جائے تو وہ حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے یا اس کے سبب میں توقف کی وجہ سے حکم میں بھی توقف ہو گا۔ یہ توقف یا تغییر حکم شرعی کو منسوخ کرنا نہیں ہے کیونکہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کوئی نسخ نہیں ہے۔ پہلا حکم اب بھی باقی رہتا ہے لیکن اس حکم کے محل میں اس کے اطلاق کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تطبیق ناممکن ہو جاتی ہے۔ پس جب بھی دوبارہ اس محل میں وہ أ سباب پائے جائیں گے تو اس حکم کی دوبارہ تطبیق واجب ہو جائے گی۔ مثلاًزکوۃ کے مصارف میں تالیف قلب کی مد کے حکم میں مسلمانوں کے سواد أعظم کو بڑھانے کی مصلحت شامل تھی۔ پس جب مسلمانوں کی تعداد خوب بڑھ گئی اور ان کی شان و شوکت قائم ہو گئی تو جن کی تالیف قلب کی جاری رہی تھی‘ ان کی کسی تاثیر یا حاجت کی پرواہ نہ کی گئی۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حصہ روک لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ اقدام حکم شرعی کا نسخ یا تعطیل نہیں تھی بلکہ حکم شرعی کا اطلاق اپنے محل پر اس لیے نہیں ہوا کہ اس میں حکم کے پائے جانے کے أ سباب مفقود ہوگئے تھے۔ پس اگر پھر کبھی مؤلفین قلوب کا دور آیا اور وہ مقصد بھی پایا گیا کہ جس کے لیے یہ حصہ مشروع کیا گیا تھا‘ تو پھر یہی حصہ ایسے لوگوں کی طرف لوٹ جائے گا۔‘‘
ز مان و مکان کے تغیر میں اجتماعی اجتہاد
زمان و مکان کے تغیر سے حکم شرعی بھی تبدیل ہو جاتا ہے یعنی سابقہ حکم شرعی کے اطلاق کی بجائے اب نئے حکم شرعی کا نفاذ ہو گا۔ مثلاً عورت کے چہرے کے پردے کے بارے میں متقدمین حنفیہ کا کہناہے کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور عورت کا چہرہ اس کے ستر میں داخل نہیں ہے جبکہ متأخرین حنفیہ نے فتنے و فساد کے حالات کو بنیاد بناتے ہوئے چہرے کے پردے کو واجب قرار دیا ہے۔ایک ہی مسئلے کے شرعی حکم میں زمان و مکان کی تبدیلی کی بناء پر تغیرکی فقہاء کے اقوال میں کثرت سے مثالیں ملتی ہیں ۔یہ بھی واضح رہے کہ اس صورت میں فقہاء کے اجتہاد میں تبدیلی ہوتی ہے نہ کہ حکم شرعی کی أصل میں ۔ زمان و مکان کی تبدیلی کا تعین کون کرے گا؟ اس بارے میں ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’والتغیرھنا لیس تغیرا فی الحکم‘ وإنما ھو تغیر فی مناط الحکم ومثل ھذا لا یعد تغییراً ولا تبدیلاً إذا ما روعی فی کل حادثۃ الظروف والملابسات التی لھا صلۃ بالحکم‘ فإذا تغیرت الظروف والملابسات المحیطۃ بالواقعۃ تغیرت بذلک المسألۃ وتبدل وجھھا‘ وکانت مسألۃ أخری اقتضت حکماً آخر لھا۔ولکن ھذا التغییر فی المسألۃ وحکمھا یستدعی وجود من یلاحظ ھذا التغیر ویجتھد بمقتضاہ‘ وھو المجتھد۔۔۔والاجتھاد فی ھذا النوع من المسائل مھم فی التشریع وفی تحقیق مصلحۃ الأمۃ‘ إلا أنہ قد ی ستغل ذریعۃ لتعطیل أحکام الشریعۃ لتغیر الزمان والمکان‘ لذلک وجب أن یکون الاجتھاد فیہ جماعیاً لیؤمن معہ من ھوی الأفراد وخطأ تقدیرھم‘ ولأن الاجتھاد الجماعی یکون الحکم فیہ مبنی علی تحر دقیق ونقاش مستفیض من قبل مجموعۃ کبیرۃ من العلماء الرا سخین۔‘‘[1]
’’ اس صورت میں بھی جو تبدیلی ہوتی ہے وہ حکم شرعی میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ وہ تو صرف حکم کی علت میں تبدیلی ہے۔ اس قسم کی تبدیلی کو شرع میں تبدیلی یا تغیر کا نام نہیں دیں گے کہ جس میں ہر واقعے سے متعلق ان ظروف و أحوال کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ جن کا شرعی حکم سے کوئی تعلق ہو۔ پس جب واقعے سے متعلقہ ظروف و أحوال تبدیل ہو جائیں گے تو وہ مسئلہ اور اس کی جہت بھی بدل جائے گی اور اب وہ ایک دو سرا مسئلہ ہے جو ایک دو سرے شرعی حکم کا متقاضی ہے ۔ لیکن مسئلے اور اس کے حکم شرعی میں یہ تبدیلی اس کا مطالبہ کرتی ہے جو اس تبدیلی کا جائزہ لے اور اس کے مطابق اجتہاد کرے اور وہ مجتہد ہے۔۔۔ اس قسم کا اجتہاد قانون سازی میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس سے امت کی مصالح کی تکمیل ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات اجتہاد کی اس قسم کو تغیر زمان و مکان کی وجہ سے احکام شرعیہ کو معطل کرنے کے لیے بھی ناجائز طور
|