Maktaba Wahhabi

207 - 214
بالقوانین والواقع خیر شاھد وأیضا فھؤلاء القلۃ الذین یعرفون ھذہ القوانین علی ما یری فکثرت عندھم الاعتراضات علی تنفیذ أحکام قضاتھم وأنشئت ما یسمی بالمحاکم الا ستئنافیۃ وحتی القضاۃ مختلفون فلم یرفع اختلافھم ولم ینفعھم التقنین حینئذ۔‘‘[1] ’’ اس وجہ جواز کا جواب یہ ہے کہ وضعی قوانین مدون صورت میں موجود ہیں اور ان کی شروحات بھی لکھی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود عامۃ الناس کی اکثریت ان قوانین سے ناواقف ہے۔ان قوانین کو جاننے والا ایک قلیل طبقہ ہے جو باقاعدہ ان کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں مدون قوانین کے ذریعے فیصلے کیے جاتے ہیں ‘ ان میں وکلاء کے دفاتر کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اس مسئلے میں حقیقت واقعہ سب سے بڑا گواہ ہے۔ پس وکلاء کی یہ قلیل جماعت جو اپنے خیال کے مطابق اس قانون کو جانتی ہے ‘ انہیں بھی ان قوانین کی تطبیق میں اپنے قاضیوں سے کثرت سے اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔ پس اس مسئلے نے ایپلیٹ عدالتوں کے تصور کو جنم دیا ہے لیکن اس کے باوجود قاضی اختلاف کرتے ہیں اور ان کا اختلاف ختم نہیں ہوا ۔ پس ان کی تقنین نے ان کو کچھ فائدہ نہ دیا؟۔‘‘ تیسری دلیل تقنین کے جواز میں ایک تیسری دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ عدم تقنین کی صورت میں یہ اندیشہ باقی رہتا ہے کہ قاضی اپنی خواہش نفس سے فیصلے کرنے لگ جائے جبکہ تقنین کی صورت میں قاضی ایک معین قانون کے مطابق فیصلوں کا پابند ہو گا۔شیخ عبد الرحمن الشثری حفظہ اللہ اس وجہ جواز کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ ومن ھذہ المبررات أن فی التقنین دفعاً لحکم القاضی بالتشھی؟۔‘‘[2] ’’اور ان وجوہات جواز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تقنین کی صورت میں قاضی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اپنی خواہش نفس سے فیصلے کرے۔‘‘ اس کا جواب یہ دیاجا سکتا ہے کہ قاضی کو اگر کسی قانون کا پابند بنا بھی دیاجائے تو پھر بھی قاضی کو اس بات کا پابند بنانا تقریباً ایک ناممکن امر ہے کہ وہ اپنی خواہش نفس سے فیصلے نہ کرے۔جن اسلامی ممالک میں قانون سازی کی گئی ہے کیا ان ممالک کی عدالتوں کے قاضی اپنی خواہشات سے فیصلے نہیں کرتے؟یعنی یہ اندیشہ تو تقنین کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ پس اس مسئلے کا اصل حل قاضیوں کی روحانی و اخلاقی تربیت ہے نہ کہ قانون سازی۔ قانون سازی سے ججوں کو نہ تو ماضی میں کبھی پابند کیا جا سکا ہے اور نہ ہی کبھی مستقبل میں کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کی عدالتیں اس مسئلے کابہترین شاہد ہیں کہ ریا ست کا ایک معین قانون ہونے کے باوجود بھی قاضیوں کو اس قانون کے مطابق فیصلوں کا پابند بنانا کس قدر مشکل امر ہے۔ پس تقنین قاضیوں کی خواہش نفس پر قابو پانے کے لیے کوئی مؤثر حل نہیں ہے۔ اس کاایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قاضی کی شرائط میں اس کا عادل ہونا بھی ایک بنیادی شرط ہے۔لہذا تقنین کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی کسی مدون قانون کے بغیر ہی فیصلے ہوتے رہے ہیں ۔مولانااصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ان معترضین کو شایدپتہ نہیں ہے کہ مدون قوانین کا رواج دنیا میں کب سے ہوا ہے؟ یہ غریب سمجھتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ اپنے عدالتی نظام کو مدون قوانین کی مدد سے چلاتی رہی ہے۔اگر عدالتوں کے لیے مرتب احکام و قوانین کے ضابطے نہ ہوں تو پھر نہ تو عدالتیں کوئی کام کر سکتی ہیں اورنہ عدل و انصاف قائم رکھنے کے لیے کوئی ممکن صورت باقی رہ جاتی ہے۔یہ خیال محض حقیقت حال سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔اہل روم‘
Flag Counter