Maktaba Wahhabi

160 - 214
بات تو یہ تھی کہ ’مؤطا‘ کو بیت اللہ پر لٹکا کر لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنا دیا جائے۔۔۔امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! جہاں تک ’مؤطا‘ کو بیت اللہ پر لٹکانے کا معاملہ ہے تو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں فروعات دین میں اختلاف ہوا پس وہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور ان میں سے ہر ایک اپنی رائے کو صحیح سمجھتا تھا(لہٰذا ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے متبعین کے درمیان بھی ا سی بنیاد پر اختلاف ہواہے)۔۔۔ اس پرخلیفہ نے کہا: اے أبو عبد اللہ! اللہ تجھے اور علم کی توفیق دے۔ ‘‘ فتاوی عالمگیری کی تالیف راجح فقہی قوال کی تدوین کی ایک سنجید ہ کوشش برصغیر پاک و ہند میں مغل بادشاہ سلطان اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ہوئی ہے۔اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک جماعت کو شیخ نظام الدین رحمہ اللہ کی صدارت میں اس کام پر مامور کیا۔ اس فتاوی کی تدوین پر کم و بیش د س لاکھ کا خرچ آیاتھا اور اس میں ایک لاکھ کے قریب مسائل کو جمع کیاگیا ہے۔ اس فتاوی میں مسائل کی ترتیب فقہ حنفی کی معروف کتاب ’الہدایۃ‘ سے لی گئی ہے۔یہ کتاب قانون سازی کے منہج و اسلوب پر نہیں ہے بلکہ اس میں فقہ حنفی کے مفتی بہ اور راجح اقوال کو مختلف ابواب کے تحت جمع کر دیا گیا ہے۔ اس فتاوی کی تدوین گیارہویں صدی ہجری کے آخری ربع میں ہوئی اور اس تکمیل میں تقریباً آٹھ سال صرف ہوئے۔ایک خاص فقہی مذہب کے دائرے میں اجتماعی اجتہادکی یہ ایک اہم مثال ہے۔محمد یو سف فاروقی لکھتے ہیں : ’’بعد ازاں اورنگزیب عالمگیر(۱۰۶۸ھ۔۱۱۱۸ء)نے علم فتاوی کو عروج پر پہنچا دیا۔عالمگیر خود بھی فقہی اصول و جزئیات پر عبور رکھتے تھے اور علماء و فقہاء کے لیے علمی مجال س کا اہتمام کرتے تھے‘ انہوں نے شیخ نظام لدین برہان پوری رحمہ اللہ کی سربارہی میں ایک بڑی کمیٹی تشکیل دی جس میں ہندو ستان بھر کے چیدہ چیدہ علماء شریک تھے۔مؤرخین نے اس کمیٹی کے ۲۷ یا ۲۸ علماء کے حالات زندگی کو جمع کیا ہے۔فتاوی عالمگیری کا منصوبہ تقریباً آٹھ سال میں مکمل ہوا۔یہ فتاوی بھی حنفی مکتب فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں احناف کی ان آراء کو لیا گیا ہے جو مفتی بہ ہیں ۔ اگر کسی مسئلہ میں ایک سے زائد اقوال پائے جاتے ہیں اور ان میں کوئی بھی دلائل کی بنیاد پر قابل ترجیح نہیں ہے تو ان تمام اقوال کو بیان کر دیاگیا ہے۔فتاوی عالمگیری عربی زبان میں مدون ہوا تھا‘ عام لوگوں کے ا ستفادہ کے لیے عالمگیر نے اپنے دور میں ہی اس کا فار سی ترجمہ کرا لیا تھا‘ بعد میں اس کا اردو ترجمہ سید امیر علی ملیح آبادی رحمہ اللہ نے کیا جو فتاوی ہندیہ کے نام سے شائع ہوا۔‘‘[1] قاضی و جج حضرات مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت اس ’فتاوی‘ سے رہنمائی تو لیتے تھے لیکن اس کو ملکی قانون کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔محمد طفیل ہاشمی لکھتے ہیں : ’’گیارویں صدی ہجری ؍ سترہویں صدی عی سوی میں اورنگ زیب عالمگیر نے شیخ نظام کی سربراہی میں مشاہیر علماء کی ایک کمیٹی تشکیل دی تا کہ وہ ایک ایسی جامع کتاب مدون کریں جس میں ظاہر الروایۃ کے وہ تمام مسائل آ جائیں جنہیں علماء کا حسن قبول حاصل ہوا ہو۔ یہ کتاب جسے فتاوی عالمگیری یا ’’ الفتاوی الہندیۃ‘‘ بھی کہتے ہیں ‘ فقہ کی متداول کتب کے اسلوب پر ہے۔اگرچہ فتاوی عالمگیری کو نیم سرکاری حیثیت حاصل تھی ‘ لیکن نہ تو یہ کسی مجموعہ قوانین کی طرح واجب العمل رہا اور نہ اسلوب و ترتیب میں یہ مجموعہ ہائے قوانین سے مشابہ ہے‘ البتہ اس میں ہرمسئلے سے متعلق مفتی بہ اقوال درج ہیں ۔۔۔ہندو ستان کے عدالتی نظام میں اس کامؤثر کرداررہا ہے ۔‘‘[2] مجلہ أحکام عدلیہ کی تنفیذ تیرہویں صدی ہجری کے أخیر میں سلطنت عثمانیہ میں اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ فقہ کی ضخیم کتب کا خلاصہ نکال کر ا سے جدید اسلوب میں ایک قانونی ضابطے کی شکل دے دی جاتاکہ قاضیوں کے لیے فیصلہ کرنے میں آ سانی ہو۔ اس مقصد کے پیش نظرایک ضابطہ دیوانی مدون کیا گیا جس کانام’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘ہے۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار اس ’مجلہ‘کی تدوین کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے
Flag Counter