کان غیرہ من الأغبیاء المقلدین والعتاۃ المتعصبین والح سدۃ المتدینین لظن أن الحق فیما ھو علیہ ومقصور علی من ین سب إلیہ۔‘‘[1]
’’امام مالک رحمہ اللہ کے انصاف‘ دینی ثقاہت‘دو سرے مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن اور امیر المؤمنین کو کی جانے والی نصیحت پر ذرا غور فرمائیں ۔ اگرامام صاحب رحمہ اللہ کے علاوہ جاہل مقلدین ‘ نافرمان متعصبین اور دین دار حا سدین میں سے کوئی ہوتا تو ضرور اس گمان میں مبتلا ہوتا کہ حق توصرف وہی ہے جس پر وہ عمل کر رہا ہے یا اس فقیہ کے پاس ہے کہ جس کی طرف وہ اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے۔‘‘
بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ واقعہ امام مالک رحمہ اللہ کے ساتھ دو دفعہ پیش آیاتھا۔۱۶۳ھ میں أبوجعفر منصور دوبارہ حج کے لیے گیا تو اس نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا:
’’إنی عزمت أن آمر بکتباک ھذا الذی وضعتہ یعنی المؤطا فینسخ منہ نسخ ثم أبعث إلی کل مصر من أمصار المسلمین منھا نسخۃ وآمرھم أن یعملوابما فیھا ولا یتعدونہ إلی غیرہ و یدعوا ما سوی ذلک من ھذا العلم المحدث فإنی رأیت أھل العلم رواۃ أھل المدینۃ و علمھم فقلت: یا أمیر المؤمنین لا تفعل ھذا فإن الناس قد سبقت إلیھم أقاویل و سمعوا أحادیث ورددوا روایات وأخذ کل قوم مما سبق إلیھم وعملوا بہ ودا نوا بہ من اختلاف الناس وغیرھم وأن ردھم عما اعتقدوا شدید فندع الناس وما ھم علیہ وما اختار أھل کل بلد منھم لأنفسھم فقال: لعمری لو طاوعتنی علی ذلک لأمرت بہ۔‘‘[2]
’’میں نے یہ پختہ عزم کر لیا ہے کہ میں آپ کی کتاب مؤطا کے ن سخے تیار کرواؤں اور پھر تمام بلاد اسلامیہ میں سے ہر ایک شہر میں ایک ن سخہ بھجوا دوں اور عوام کو یہ حکم جاری کر وں کہ اس پر عمل کریں جو اس میں ہے ۔ اس کے غیر کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس بیان کردہ علم کے علاوہ کو چھوڑدیں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تمام اہل علم اہل مدینہ ہی سے علم آگے نقل کررہے ہیں ۔ اس پر اما م مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا:اے امیر المؤمنین! ایسا نہ کریں کیونکہ لوگوں نے مختلف مسائل میں مختلف اقوال کو اختیار کیا ہے‘ وہ بعض احادیث کوقبول کرتے ہیں تو بعض کو رد کرتے ہیں ۔ہر شہر کے رہنے والے‘جو ان کے پاس پچھلوں سے علم چلا آرہا ہے‘ اس کو حاصل کرتے ہیں ‘ اس پر عمل کرتے ہیں اور علماء کے اختلافات میں سے اس کواپنے لیے بطور مذہب اختیار کرتے ہیں ۔ جس چیز کے دین ہونے کا وہ اعتقاد رکھتے ہیں ‘ انہیں اس سے لوٹانا ایک سخت بات ہو گی۔ پس ہمیں لوگوں کوان کے حال اور جس پر وہ عمل کرتے ہیں اور جس کو انہوں نے علماء کے اختلافات میں سے اپنے لیے اختیار کیاہے‘ پرچھوڑ دینا چاہیے ۔ اس پر خلیفہ منصور نے کہا:میری عمر کی قسم! اگر آپ میری بات مان لیتے تو میں اس کے مطابق حکم جاری کر دیتا۔‘‘
بعض تاریخی روایات میں یہ بھی ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے بھی امام مالک رحمہ اللہ کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ مؤطا کو کعبہ پر لٹکاکر لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنا دیتے ہیں تو امام مالک رحمہ اللہ نے اس سے انکار کر دیا۔أبو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ عبد اللہ بن عبد الحکم رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ سمعت مالک ابن أنس یقول: شاورنی ھارون الرشید فی ثلاث فی أن یعلق المؤطا فی الکعبۃ ویحمل الناس علی ما فیہ۔۔۔فقلت یا أمیر المؤمنین أما تعلیق المؤطا فی الکعبۃ فإن أصحاب ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم اختلفوا فی الفروع فافترقوا فی الآفاق وکل عند نفسہ مصیب۔۔۔فقال: وفقک اللّٰہ یا أبا عبد اللّٰہ۔‘‘[3]
’’میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ مجھ سے خلیفہ ہارون الرشید نے تین چیزوں کے بارے میں مشورہ کیا۔پہلی
|