Maktaba Wahhabi

158 - 214
اجتھادھم خطأ ولیس ھذا تقنین اً وضعیاً۔‘‘[1] ’’یہ تجویز اس وقت کے علماء میں زیادہ رواج نہ پا سکی کیونکہ فقہاء اس بات کوپسند نہیں کرتے تھے کہ لوگوں کو اپنی تقلید پر مجبور کریں بلکہ وہ اپنے شاگردوں کو بھی اپنی فقہی آراء کے بارے میں تعصب و تنگ نظری سے منع کرتے رہتے تھے اور وہ اس بات سے ڈرتے رہتے تھے کہ ان کے اجتہاد میں کوئی غلطی نہ ہو جبکہ ان کے یہ اجتہادات کسی وضعی قانون سازی کی بنیاد بھی نہیں تھے۔ ‘‘ علماء میں اس تجویز کے مقبول نہ ہونے کے باوجود خلیفہ أبو جعفر منصور کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور جب وہ ۱۴۸ھ میں حج کے لیے تشریف لے گیا تو اس نے مدینہ میں امام مالک رحمہ اللہ سے ملاقات فرمائی اور ان سے یہ درخوا ست کی: ’’إن الناس قد اختلفوا فی العراق فضع للناس کتاب تجمعھم علیہ فوضع المؤطا۔‘‘[2] ’’ بیشک عراق میں علمی مسائل میں بہت زیادہ اختلاف واقع ہوا ہے پس آپ ایک ایسی کتاب جمع کردیں کہ جس پر آپ لوگوں کو جمع کر دیں تو اس پر امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا لکھی۔‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں : ’’إن أبا جعفر قال لمالک ضع کتاباً فی العلم نجمع الناس علیہ قال لہ مع ذلک: اجتنب فیہ شواذ ابن عباس وشذو أبی عمرو و رخص ابن مسعود فقال لہ مالک: ما ینبغی لک یا أمیر المؤمنین أن تحمل الناس علی قول رجل واحد یخطیٔ ویصیب وإنما الحق من ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم وقد تفرقت أصحابہ فی البلدان وقلد أھل کل بل من صار إلیھم فأقر أھل کل بلد علی ما عندھم۔‘‘[3] ’’أبو جعفر نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا کہ آپ ایک ایسی کتاب تالیف کریں کہ جس پر ہم لوگوں کو جمع کر دیں ۔ اس کے ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کتاب کی تالیف کے دوران حضرات عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شذوذات‘ حضرت أبو عمرو رضی اللہ عنہ کی انفرادیت اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی رخصتوں سے اجتناب کیجیے گا۔ اس پر اما م مالک رحمہ اللہ نے ا سے کہا: امیر المؤمونین! آپ کے لیے یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو کسی ایسے شخص کے قول پر جمع کریں جو خطا بھی کر تا ہو اور در ست رائے تک بھی پہنچتا ہو۔حق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہی جاری ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف شہروں میں آباد ہو گئے اور ہر شہر کے لوگوں نے اپنے شہر کے مفتی صحابہ رضی اللہ عنہم کے فتاوی و علم پر اعتبار کیا۔ اس طرح ہر شہر کے لوگوں نے‘ جو ان کے پاس علم پہنچا تھا‘ ا سکے مطابق ایک رائے بنا لی۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اجتہادی مسائل میں قانون سازی در ست نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی تقنین کے ذریعے تمام مجتہدین کو کسی ایک مجتہد کی رائے کا پابند بنایا جاتا ہے جو شرعاً در ست نہیں ہے۔امام مالک رحمہ اللہ کے جواب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہر مجتہد خطاکار بھی ہوتا ہے اور مصیب بھی۔پس کسی ایک مجتہد کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ہر مسئلے میں در ست رائے تک ہی پہنچا ہے‘ ایک ناممکن أمر ہے۔بعینہ یہی صورت حال مقننہ کی بھی ہے۔دوران تقنین اس أمر کا سو فی صد امکان موجود ہے کہ مقننہ نے جس فقہی مذہب یا فتوے کو بنیاد بناتے ہوئے تقنین کی ہو وہ شرعی دلائل کی روشنی میں ایک مرجوح رائے ہو یا قرآن و سنت سے براہ را ست ا ستدلال میں اراکین مقننہ کو مغالطہ بھی لگ سکتا ہے۔اب اس قانون کا ان لوگوں کو پابند بنانا‘ جو درجہ اجتہاد پر فائز ہوں یا اراکین مقننہ سے علم میں بڑھ کر ہوں یا ان کے برابر کاعلم رکھتے ہوں یا ان کے پاس اپنے موقف کے حق میں قرآن و سنت کی روشنی میں ٹھو س دلائل موجود ہوں ‘اخلاقی اور منطقی اعتبار سے ایک در ست طرز عمل نہ ہو گا۔ علامہ عی سی بن مسعود الزواوی رحمہ اللہ ‘امام صاحب کے اس جواب پر تعلیقاً عرض فرماتے ہیں : ’’فانظر إنصاف مالک رضی اللّٰہ وصحۃ دینہ وحسن نظرہ للمسلمین ونصیحتہ لأمیر المؤمنین ولو
Flag Counter