Maktaba Wahhabi

157 - 214
قوم من سنۃ وقیاس ثم نظر فی ذلک أمیر المؤمنین وأمضی فی کل قضیۃ رأیہ الذی یلھمہ اللّٰہ ویعزم علیہ عزما وینھی عن القضاء بخلافہ وکتب ذلک کتابا جامعاً لرجونا أن یجعل اللّٰہ ھذہ الأحکام المختلطۃ الصواب بالخطأ حکماً واحدا صواباً لرجونا أن یکون اجتماع السیر قرینۃ لإجماع الأمر برأی أمیر المؤمنین وعلی لسانہ ثم یکون ذلک من إمام آخر الدھر إن شاء اللّٰہ ۔‘‘[1] ’’ جیسا کہ امیر المؤمنین ان دوشہروں اور ان کے علاوہ خلافت اسلامیہ کے دو سرے شہروں اور علاقوں کا حال دیکھ رہیں ہیں کہ ان شہروں میں قصاص ‘ نکاح و زنا اور مالی معاملات کے بارے میں مختلف شرعی احکام کے تعین میں فقہاء و علماء کا اختلاف بہت بڑھ گیا ہے۔۔۔ اس کے بعد ابن المقفع کہتا ہے: اگر امیر المؤمنین چاہیں توقاضیوں کے ان تمام اختلافی فیصلوں اور طور طریقوں کے بارے میں ایک حکم جاری کریں کہ وہ سب امیر المؤمنین کی خدمت میں ایک کتاب کی صورت میں جمع کیے جائیں کہ جس کتاب میں ان اختلافات کے ساتھ ساتھ سنت و قیاس سے ان کے دلائل بھی موجود ہوں ۔پھر أمیر المؤمنین اس کتاب میں غور و فکر کریں اور ہر قضیے کے بارے میں( اس کتاب کی روشنی میں )اپنا ایک فیصلہ جاری کر دیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ان کو الہام ہوا ہو۔پھر امیر المؤمنین اپنے اس فیصلے پر عزم مصمم کر لیں اور قاضیوں کو اس کے خلاف فیصلہ دینے سے منع کر دیں اور اس طرح سے ایک جامع کتاب ہمارے لیے مرتب کر دیں ۔ اس طرح سے ہمیں امید ہے کہ قاضیوں کے یہ مختلف فیصلے‘ کہ جن میں صحیح بھی ہیں اور غلط بھی‘ ایک ایسے حکم کی صورت اختیار کر لیں گے جو ہر حال میں صحیح ہو گا۔ہمیں یہ بھی امید ہے کہ مختلف طو رطریقوں کاامیر المؤمنین کے حکم سے ایک جگہ اکٹھا ہو جانا‘ اجماع امت کے لیے ایک قرینہ بن جائے گااور پھر یہی کام آخری زمانے کے امام سے بھی ہو گا ۔ان شاء اللہ تعالی! ۔‘‘ ابن المقفع شروع میں ایک مجو سی تھا‘ بعد میں اس نے اسلام قبول کیالیکن ا سلا م قبول کرنے کے بعد بھی اس کے نظریات و افکا ر اور اعمال و افعال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی جس کی وجہ سے اس پربعض علماء کی طرف سے ملحد و زندیق ہونے کے فتوے بھی لگائے گئے ہیں ۔ابن المقفع ایک معروف ادیب بھی تھا اس نے فار سی لٹریچر کو بھی عربی میں منتقل کیا۔ اس کی معروف کتاب’کلیلۃ و دمنۃ‘فار سی سے ترجمہ شدہ ہے۔ اس نے کل چھتی س بر س کی عمر پائی اور مشہور یہی ہے کہ ۱۴۵ھ میں خلیفہ منصور ہی کے ایک حکم پر اس کو قتل کیا گیا تھا۔بعض مؤرخین نے اس کے قتل کی وجہ اس کے الحاد کو بنایا ہے جبکہ دو سرے گروہ سے متعلق علمائے تاریخ کا کہنا ہے کہ اس کا قتل ایک سیا سی تدبیر تھی۔بعض معاصر علماء نے خلیفہ منصور کے لیے اس کی مذکورہ بالاتجویز کو اس کے ملحدانہ افکار کا ہی ایک شاخ سانہ قرار دیا ہے۔ بہرحال ابن المقفع کے اپنے افکارچاہے جی سے بھی ہوں لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کی یہ تجویز ایک اعتبار سے ضرور غیر اسلامی تصورات پر مبنی تھی۔ابن المقفع کا خلیفہ منصور کو یہ مشورہ دینا‘کہ وہ مختلف عدالتی فیصلوں اور فقہی آراء میں سے کسی ایک رائے اور فیصلے کا انتخاب اللہ کی طرف سے الہام کی بنیاد پر کر لے اور پھر ساری امت کو اپنی اس رائے کا پابند بنا لے‘ شریعت اسلامیہ کی ا سا سی تعلیمات کے منافی تھا۔خلیفہ منصور کے پاس نہ تو اس قدر علم تھا کہ وہ قضاۃ‘ علماء اور فقہاء کے فیصلوں اور اجتہادات میں ترجیح و تنقیح کا کام کر سکتا اور نہ ہی وہ اتنا نیک و پرہیز گار تھا کہ اللہ کی طرف سے اس کو الہام ہوتا کہ فلاں مسئلے میں فلاں قاضی یا فقیہ کی رائے در ست ہے۔ اگر یہ الہام واقعتاً ہوتا بھی ہو توپھر بھی اسلامی ریا ست میں قانون سازی کے لیے الہام کسی بنیادی تو کیا ثانوی مصدر کی حیثیت بھی نہیں رکھتا ہے ۔ صورت حال جو بھی ہو‘ ابن المقفع کی یہ خواہش نہ تو پوری ہو سکی اور نہ ہی ا سے علماء کے ہاں قبول عام حاصل ہوا۔علماء و فقہاء کے حلقے میں اس تجویز کے مقبول نہ ہونے کی بنیادی وجہ کیاتھی ؟ اس بارے کئی ایک علماء نے وضاحت کی ہے ۔أ ستاذمحمد سلام مدکور حفظہ اللہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئیلکھتے ہیں : ’’غیر أن ھذا الاقتراح لم یجد رواجاً فی ذلک الحین لإباء الفقھاء أن یتحملوا تبعۃ إجبار الناس علی تقلیدھم وھم الذین یحذرون تلامیذھم التعصب لآرائھم کما أنھم تورعوا وخافوا أن یکون فی
Flag Counter