Maktaba Wahhabi

111 - 214
اس مسئلے میں کوئی اجماع منعقد ہو چکا ہو۔‘‘ ڈاکٹر أحمد علی امام حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ولا تکو ن الشوری فی أمر قطعی الدلالۃ والثبوت سواء بنص صریح من القرآن أو خبر صحیح من السنۃ۔أما إذا کان النص القرآنی یحمل دلالۃ ظنیۃ فھو یخضع للشوری والاجتھاد الجماعی ومما یتعلق بفھم النص وا ستنباط معقودہ۔‘‘[1] ’’قطعی الدلالۃ اور قطعی الثبوت أمور میں شوری جائز نہیں ہے‘چاہے وہ أمور قرآن کی نص سے ثابت ہوں یا سنت صحیحہ سے۔ اگر قرآنی نص ظنی الدلالۃ ہو تو وہ اپنے فہم اور متنوع استنباط کے اعتبار سے شوری اور اجتماعی اجتہاد کا محل ہو سکتی ہے۔‘‘ اس کے باوجود بعض نام نہاد متجددین کا یہ طرز عمل سامنے آتا ہے کہ وہ قطعی نصوص کی موجودگی میں عقلی موشگافیوں کو ترجیح دیتے ہوئے دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے کے درپے ہیں ۔ ڈاکٹر یو سف القرضاوی حفظہ اللہ ان لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’الأمر الذی یجب تاکیدہ بقوۃ ھو أن ما ثبت بدلیل قطعی لا یجوز أن ندع للمتلاعبین أن یجترئوا علی اقتحام حماہ۔فإن ھذہ القطعیات ھی عماد الوحدۃ الاعتقادیۃ والفکریۃ والعملیۃ للأمۃ۔۔۔ولقد بلغ التلاعب بھؤلاء إلی حد أنھم اجترؤوا علی الأحکام الثابتۃ بصریح القرآن‘ مثل توریث الأولاد للذکر مثل حظ الأنثیین‘ فھم یریدون أن یجتھدوا فی الت سویۃ بین الذکر والأنثی بدعوی أن التفاوت کان فی زمن لم تکن المرأۃ فیہ تعمل مثل الرجل۔۔۔وبلغ التلاعب بعضھم أن قالوا: إن الخنازیر التی حرمھا القرآن وجعل لحمھا ر جسا‘ کانت خنازیر سیئۃ التغذیۃ‘ أما خنازیر الیوم فتربی تحت إشراف لم تنلہ الخنازیر القدیمۃ۔وھکذا یرید ھؤلاء لشرع اللّٰہ أن یتبع أھواء النا س‘ لا أن تخضع أھواء الناس لشرع اللّٰہ ولو اتبع الحق أھوائھم لف سدت ال سموات والأرض ومن فیھن۔‘‘[2] ’’ جس بات کی تاکید کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جو احکام دلیل قطعی سے ثابت ہوں تو ان کے بارے میں یہ رویہ جائز نہیں ہے کہ ہم دین کو کھیل تماشہ بنانے والوں کے لیے چھوڑ دیں کہ وہ ان أحکامات میں جرأت کرتے ہوئے منہ مارتے پھریں ۔ یہ قطعی احکام امت کی اعتقادی‘ فکری اور عملی وحدت کا ستون ہے۔۔۔ان متجددین کا یہ کھیل تماشہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ انہوں نے قرآن کی صریح نص سے ثابت شدہ احکام کو بھی محل اجتہاد بنا لیا ہے۔ مثلاً لڑکے کا حصہ قرآن میں لڑکی سے د وگنا بیان ہوا ہے اور یہ أصحاب یہ چاہتے ہیں کہ اجتہا دکرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کا حصہ برابر قرار دے دیں ۔ ان کا دعوی یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے یہ حصے قرآن نے اس دور میں بیان کیے ہیں کہ جس میں عورت‘ مرد کی طرح کوئی کام کاج نہیں کرتی تھی۔۔۔ ان میں سے بعض متجددین کے کھیل تماشے نے ان کویہاں تک بھی پہنچا دیا ہے کہ انہوں نے کہا: بے شک! جن خنازیر کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے اور اس کے گوشت کو ناپاک کہاہے‘ وہ ایسے خنازیر تھے کہ جن کی خوراک گندی تھی۔ جبکہ آج کل کے خنازیر کی باقاعدہ نگرانی میں پرورش(فارمنگ)ہوتی ہے اور قدیم خنازیر کا معاملہ ایسا نہیں تھا۔ یہ أصحاب یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی شریعت کو لوگوں کی ہوائے نفس کے تابع کر دیں نہ کہ عامۃ الناس کی خواہش نفس کو اللہ کی شریعت کے تابع۔ اور اگر حق بات ان کی خواہش نفس کی پیروی کرے تو آ سمانوں اور زمین میں فساد برپا ہو جائے۔‘‘ قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ نصوص کی تطبیق میں اجتماعی اجتہاد امام شاطبی رحمہ اللہ نے اجتہاد کو بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی قسم کا اجتہاد نصوص سے شرعی احکام کے استنباط کا نام ہے جبکہ
Flag Counter