ا سی کمیٹی کی کوششوں سے ۱۹۴۶ء میں قانون وصیت بھی جاری ہوا۔ اس قانون کے ذریعے بھی معاشرے کے بعض پیچیدہ اور الجھے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ا ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ کہتے ہیں :
’’ ثم صدر القانون ۷۱ فی سنۃ ۱۹۴۶م أیضاً بأحکام الوصیۃ دون تقید بمذھب معین ولا حتی بالمذاھب الأربعۃ ومن أھم قواعدہ القول بالوصیۃ الجبریۃ وھی أن یکون للأحفاد الذین حجبوا عن المیراث من جدھم أو جدتھم حق واجب فی الترکۃ ھو نصیب أصلھم لو کان حیاً بحیث لا یزید علی ثلث الترکۃ وألا یکون أوصی لھم جدھم أوجدتھم بشیء وقد أخذ ھذا القانون من فقھاء التابعین ومن فقہ الإباضیۃ کما أجاز القانون الوصیۃ للوارث فی حدود ثلث الترکۃ دون توقف علی إجازۃ باقی الورثۃ۔‘‘[1]
’’ا سی طرح ۱۹۴۶ء میں قانون ۷۱ بھی جاری ہوا جو وصیت سے متعلقہ مسائل کے بارے میں تھا۔یہ قانون بھی کسی ایک فقہی مذہب یاصرف مذاہب أربعہ کی آراء پر مشتمل نہ تھا۔ اس قانون کی اہم دفعات میں سے ایک جبری وصیت کی شق ہے۔ اس شق کے مطابق جو پوتے اپنے دادا اور دادیوں کی وراثت سے محروم ہو جاتے ہوں ‘ ان کے لیے ورثہ میں(بطور جبری وصیت)لازمی حصہ شامل ہو گا اور یہ حصہ وہ گا جو ان کے والد کے زندہ ہونے کی صورت میں ان کو ملنا تھابشرطیکہ وہ حصہ(جو پوتے کو ملنا ہے)کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد نہ ہواور یہ بھی کہ ان کے دادا یا دادی نے ان کے حق میں کوئی اور وصیت نہ کی ہو۔یہ قانون بعض تابعین اور فقہ اباضیہ کی رائے کے مطابق بنایا گیا ہے۔ا سی طرح اس قانون کے مطابق وارث کے لیے بھی وصیت کا ایک تہائی ترکہ کی حدود میں جائز قرار دیاگیا ہے ‘ چاہے باقی ورثا راضی ہوں یا نہ ہوں ۔‘‘
۱۹۳۶ء میں ہی علماء کی ایک کمیٹی نے مختلف مذاہب کی روشنی میں مصرکے جدید مدنی قانون Civil Law))کو مرتب کیا۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی لکھتے ہیں :
’’مصر کے مدنی( سوَل)قانون کی تنقیح کے لیے پہلی کمیٹی ۱۹۳۶ء میں ‘ دو سری کمیٹی ۱۹۳۸ء میں اور تیسری کمیٹی ۱۹۳۸ء کے آخر میں زیر قیادت ڈاکٹر عبد الرزاق سنہوری بیگ بنائی گئی ۔آخری کمیٹی نے تقریباً دو سال کے عرصے میں اپنا کام مکمل کر لیا اور اس کے بعد توضیحی اور ٹھو س یاداشتیں قلم بند کیں ۔جدید مسودہ قانون میں ۱۱۴۹ دفعات ہیں اور وہ تین ماخذوں سے لیا گیا ہے: قانون مقارن‘ اجتہاد القضاء المصری اور شریعت اسلامیہ۔‘‘[2]
یہ قانون ۱۹۴۹ء میں نافذ ہوا۔مفتی عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں :
’’قانون مذکور ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۹ء سے نافذ ہوا اس نے قانون مدنی ۲۸ اکتوبر ۱۸۸۲ء اور قانون مدنی محکمہ جات مختلط۲۸ جون۱۸۷۵ء کومنسوخ کر دیا۔‘‘[3]
یہ مصر میں اسلامی بنیادوں پر قانون سازی کی ایک مختصر سی تاریخ تھی۔اب ہم عالم عرب اور عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب میں تقنین کے حوالے سے ہونے والے کوششوں کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں ۔
سعودی عرب میں قانون سازی کی تاریخ
سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں سعودی عرب کا اکثرعلاقہ خلافت عثمانیہ کے تحت تھا اور یہاں تقریباًوہی قانون لاگو تھا جس کا نفاذ ترکی میں تھا۔ترک حکمرانوں کی بعض پالیسوں سے اختلاف کرتے ہوئے اس وقت کے ایک مقامی عرب حکمران عبد العزیز بن سعود نے فوج جمع کر کے
|