ترکوں کے خلاف جنگ شروع کر دی اور ۱۹۰۲ء میں نجد کے دار الحکومت ریاض کو فتح کر لیا۔جنگ عظیم اول(۱۹۱۴ء )کے دوران سلطان عبد العزیزبن سعود‘ عرب کے مرکزی علاقے پرقابض ہوچکے تھے۔ اس جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کی‘جبکہ ابن سعود نے برطانیہ کی حمایت کی۔برطانیہ کی تحریک پر ابن سعود نے ترکوں کے خلاف جنگ جاری رکھی جس کے نتیجے میں دولت عثمانیہ نے حجاز کا علاقہ بھی خود ہی خالی کر دیا۔۱۹۲۴ء میں والی مکہ سلطان حسین نے خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعوی کیالیکن ابن سعود نے اس کو باغی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف لشکر کشی کی اور حجاز فتح کر لیا۔۱۹۲۶ء میں ایک صلح کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ابن سعود کو سعودی عرب جبکہ والی مکہ سلطان حسین کے بھائیوں کو عراق اور شرق اردن کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔
جدید سعودی عرب کے قیام میں آل سعود کے ساتھ محمد بن عبد الوہاب اور ان کے خاندان یعنی آل الشیخ کا بھی کافی نمایاں حصہ تھا لہذا اس سلطنت کے قیام کے وقت ہی سے مذہبی امور میں آل الشیخ کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس سلطنت کے قیام ہی کے دور سے سعودی علماء فقہی قانون سازی کے تصور سے نا آشنا تھے۔پس سعودی عرب میں شروع ہی سے اسلامی قانون تحریری صورت میں نافذ نہیں رہا بلکہ قاضیوں کویہ ہدایت تھی کہ وہ پیش آنے والے مقدمات میں براہ را ست قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کریں ۔ڈاکٹر محمود أحمد غازی لکھتے ہیں :
’’ان اسباب کی بنا پر سعودی عرب کے علماء کرام نے تدوین کو ناپسندیدہ قرار دیا اور جب ۱۹۲۴ء ۔ ۱۹۲۵ء میں مملکت سعودی عرب کا قیام عمل میں آیا تو ان کے اس مشورہ یا رائے کے نتیجہ میں یہ طے کیا گیا کہ اسلامی احکام و قوانین کو غیر مرتب ہی رہنے دیا جائے اور جس طرح سے انگل ستان میں کامن لاء نافذ ہوتا ہے‘ کم و بیش ا سی طرح سے اسلامی شریعت کو بد ستور نافذ العمل رکھاجائے۔چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک سعودی علماء کی یہی رائے رہی ہے اور ا سی پر وہ عمل درآمد کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔آج بھی مملکت سعودی عرب میں وہ تمام قوانین غیر مدون ہیں جو وہاں کی عام عدالتوں کے دائرہ اختیارمیں ہیں ‘ مثلاً تمام عائلی قوانین‘ حدود و تعزیرات کے تمام احکام اور ایسے ہی دو سرے متعدد قوانین پر ضابطہ بندی کے بغیر ہی عمل درآمد ہوتاہے۔‘‘[1]
مفتی عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں :
’’ سعودی عرب میں مکمل د ستور نافذ نہیں ۔ دو سرے اسلامی ممالک کی طرح کوئی مدنی یا تعزیری قانون نہیں ۔ چیف جج سے محکمہ شرعی متعلق ہے وہ اس میں قرآن و سنت کے مطابق احکام صادر کرتا ہے۔چور کے لیے قطع ید کی سزا مقرر ہے۔زنا کی سزا سنگ ساری ہے۔‘‘[2]
سعودی عرب کے اکثر علماء اور کبار فقہاء نے بعض اسباب کی وجہ سے ‘کہ جن کا تذکرہ ہم نے تقنین کے عیوب کے عنوان سے کیا ہے‘ مجتہد فیہ شرعی احکام میں قانون سازی کو حرام قرار دیاہے۔وہ جلیل القدر سعودی علماء کہ جنہوں نے تقنین کو حرام ٹھہرایا ہے‘ میں شیخ محمد أمین شنقیطی‘عبد اللہ بن حمید‘ عبد العزیز بن باز‘ عبد الرزاق عفیفی‘ ابراہیم بن محمد آل الشیخ‘ عبد العزیزبن صالح‘ محمدالحرکان ‘ سلیمان العبید رحمہم اللہ ‘ عبد اللہ بن عبد الرحمن الغدیان ‘ صالح بن محمداللحیدان ‘ عبد اللہ بن عبد الرحمن الجبرین‘ صالح بن فوان الفوازان‘ بکر بن عبد اللہ أبو زید‘ عبد الرحمن بن عبد اللہ العجلان ‘ عبد اللہ بن محمدالغنیمان اور عبد العزیز بن عبد اللہ راجحی حفظہم اللہ وغیرہ شامل ہیں ۔
جب تہذیب و تمدن کے ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نئے مسائل اور ان کے بارے میں قانون سازی کی ضرورت کا احساس بیدار ہوا تو اس کا حل سعودیہ میں یہ نکالا گیا کہ ایسے مسائل میں قانون سازی کو تدبیر و تنظیم کے دائرے میں شامل کرتے ہوئے شریعت اور شرعی احکام کی بحث سے خارج کر دیا جائے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں :
’’ان حالات میں برادر ملک سعودی عرب میں ایک نیا تجربہ کیا گیا۔وہ تجربہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا اور آج تک خاصی حد تک کامیابی
|